Maktaba Wahhabi

45 - 259
کرے جس کی بنا پر اسے اس خاص معنی پر محمول کرتاہے، حالانکہ مذکورہ بالا وجوہات یہ معنی مراد لینے سے مانع ہیں۔ ان کی پہلی توجیہ کا جواب مکمل ہوچکا ہے۔ دوسری توجیہ کا جواب رہ گئی ان کی دوسری توجیہ تو اس بارے میں عرض ہے کہ اگر فرض کرلیا جائے کہ بدعات دو قسم کی ہیں، یعنی حسنہ اور سیّئہ، اوریہ فرض کرلینا اس بات سے مانع نہیں ہے کہ حدیث تمام بدعتوں کی مذمت پر دلالت کرے۔ اس صورت میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کسی بدعت کا استحسان ثابت ہوجائے تو وہ اس عموم سے مستثنیٰ ہوجائے گی اور یہ حدیث اپنی اصل جگہ قائم رہے گی کہ ہر بدعت گمراہی ہے، کیونکہ ہم پہلے تمام معارضات کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ جو بدعت حسنہ ثابت ہوجائے وہ یا تو سرے سے بدعت ہی نہیں یا عموم میں خصوص کا حکم رکھتی ہے۔ اس طرح حدیث کی دلالت اپنی جگہ محفوظ رہتی ہے۔ یہ اس صورت میں جواب ہے جب کسی بدعت کا استحسان ثابت ہوجائے البتہ وہ معاملات جنھیں مستحسن سمجھا جاتا ہے حالانکہ وہ مستحسن نہیں ہیں۔ اور وہ امور جو حسنہ بھی ہوسکتے ہیں اور سیئہ بھی، تو ان سے استدلال کرنا درست نہیں۔ ان سب کی بابت ہم یہی مرکب جواب پیش کریں گے کہ اگر ان میں سے کسی چیز کا استحسان ثابت ہوجائے تو وہ بدعت ہی نہ ہوگی یا اس عموم میں خصوص کا حکم رکھے گی اور اگر اس کا استحسان ثابت نہ ہو تووہ بدستور حکمِ عام میں داخل رہے گی۔ دونوں جوابوں کی صورت میں حدیث کی دلالت اورحکم اپنی جگہ برقرار رہتا ہے اور مخالفین کے دلائل سے مسترد نہیں ہوتا۔ پھر یہ کسی کے لیے روا نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جامع وکلی کلام ’’کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ‘‘
Flag Counter