Maktaba Wahhabi

91 - 259
ادھر کا رخ کرنا) جائز اور روا ہے۔ لیکن خاص طور پر ایّامِ حج میں وہاں جانا مکروہ ہے۔ کیونکہ بیت المقدس کی زیارت کے لیے لوگوں نے ایک وقت خاص مقرر کر لیا ہے ، حالانکہ اس وقت ِخاص میں اس کی زیارت کوئی خصوصیت نہیں رکھتی۔ پھر ایسا کرنے سے حج کا مقابلہ پیش آجاتا ہے۔ بیت المقدس کی کعبہ سے مشابہت پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر اس فعل سے ان اعمال تک نوبت پہنچتی ہے کہ جو مسلمان بھی ان کو دیکھے گا وہ بغیر کسی شک کے کہہ دے گا کہ یہ اسلام نہیں بلکہ کوئی دوسری شریعت ہے۔ اور وہ اعمال یہ ہیں کہ لوگ صخرے کا طواف کرتے ہیں، وہاں سر منڈاتے ہیں اور قربانیاں کرتے ہیں، اسی طرح عرفات میں گمراہوں کا جبلِ رحمت میں موجود قُبّے کا طواف کرنا بھی ناروا ہے۔ عیدوں میں باجے اسی طرح عیدوں پر باجے بجانا، نغمے گانا، مسجد اقصیٰ میں دف بجانا اور ریشمی کپڑے پہننا وغیرہ بھی مکروہ ہے۔ صرف عید ہی میں نہیں، بلکہ دوسرے دنوں میں بھی یہ باتیں ناروا ہیں اور یہ کام کچھ دوسری وجوہات کی بنا پر بھی بہت قبیح اور بُرے ہیں مثلاً یہ کام مسجد اقصیٰ میں کرنا حالانکہ یہ کام تمام مساجد کے باہر بھی ممنوع ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ ان میں باطل کاموں کو دین بنانے کا ارتکاب کیا گیا ہے اور پھر عید کے دنوں میں ایسا کیا جاتا ہے۔ سنت کا ترک بھی ویسے ہی بُرا ہے جیسے بدعت کا عمل۔ لہٰذا عیدیں اسی طرح منانی چاہئیں جس طرح سابقین اولین مناتے تھے۔ نماز ادا کرنی چاہیے، مشروع خطبہ سننا چاہیے، تکبیرات کو کثرت سے کہنا چاہیے، عید الفطر سے قبل صدقہ دینا چاہیے، عید الاضحی میں قربانی کرنی چاہیے، لیکن لوگ ان مشروع اعمال میں خصوصاً تکبیرات کہنے میں سستی کرتے ہیں۔ اس طرح بعض امام ایسے ہیں کہ مردوں کو خطبہ سنانے کے بعد عورتوں کو خطبہ نہیں سناتے، جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور
Flag Counter