Maktaba Wahhabi

114 - 259
جارہا ہے۔‘‘[1] یہ نبی ٔمعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی اور آپ امت کواسی کا حکم دیتے تھے۔ جب بھی میت کو دفن کرتے یا قبور کی زیارت کرتے یا ادھر سے گزرتے تو آپ کا یہی معمول ہوتاتھا۔ یہ چیز میت کے لے اسی طرح تحیہ وسلام ہے جس طرح زندوں کے لیے تحیہ وسلام ہوتا ہے، نیز اس کے لیے بھی اس طرح دعا ہے جس طرح زندوں کے لیے دعا کی جاتی ہے۔ میت کے لیے دعا کے ضمن میں آدمی اپنے اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی دعا کرتا ہے۔ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی اور یہی سبقت لے جانے والے اولین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ تھا۔ یہی تمام مسلمانوں کے لیے مشروع کیا گیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر بھی لوگ یہی عمل کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ابن بطہ نے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے نافع رحمہ اللہ سے پوچھا: کیا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قبر نبوی کو سلام کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہاں! میں نے انھیں سیکڑوں مرتبہ دیکھا ہے کہ قبر کے پاس جاکر کھڑے ہوتے تھے اور کہتے تھے: ’’نبیٔ کریم( صلی اللہ علیہ وسلم)پر سلام ہو، ابو بکر ( رضی اللہ عنہ ) پر سلام، میرے باپ عمر ( رضی اللہ عنہ ) پر سلام۔‘‘ پھر چلے جاتے تھے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے بھی موطأ میں یہ روایت ذکر کی ہے۔[2] زیارتِ قبور قبروں کی زیارت مطلق طور پر بغیرکسی پابندی کے جائز ہے، حتیٰ کہ کفار کی بھی۔چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے
Flag Counter