Maktaba Wahhabi

92 - 660
مطلب یہ ہوا کہ سورج بھی واقعتا ًاللہ تعالی کو سجدہ کرتا ہے مگر اس کا سجدہ بعینہ ہمارےسجدہ کی طرح نہیں ہے اس کا سجدہ بھی اپنے طریقے کا ہوگاجو اللہ تعالی نے اس کے لیے مقررکیاہوگا باقی عرش کے نیچےکا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کی حکومت کے ماتحت ہے جیسا کہ کہاجاتا ہے کہ میراسربادشاہ سلامت کے تخت کے سامنے جھکا ہوا ہے باقی اس جگہ تخت یا عرش کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ تخت بادشاہ کی عظمت اورجلال وبزرگی کا مظہر ہوتا ہے۔ بہرحال حدیث کا مطلب یہ بنا کہ سورج اللہ تعالی کے عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے یعنی خود اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے مطیع وفرمانبردارہے اورایک لمحہ کے لیے بھی اس کے حکم سےباہر نہیں حقیقت میں اس حدیث نے توایک بڑی حقیقت انسان کے سامنے بیان کی ہے کہ ہرچیز حتیٰ کہ سورج، چاندوغیرہ سب اللہ تعالی کی حکومت کے ماتحت اپنا فرض نبھارہے ہیں اوراپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔ واقعتا ًکوئی ایک ذرہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکم کے سوا حرکت نہیں کرسکتا، اگرسجدہ کا مطلب اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرنگوں اوراس کی مرضی کے مطابق حرکت کرنا کی جائے تواصل اشکال نیست ونابودہوجاتی ہے حقیقت میں ایسی اشیاء کا سجدہ یہ ہی ہے کہ وہ ہر حالت میں اللہ کے حکم کےسامنے سرنگوں ہیں اوروہی کام کرتے ہیں جو کام مالک العلام نے ان کے ذمہ لگایا ہے۔ اب حدیث کے مذکورہ بالااجزاء کا بامحاورہ مطلب یہ بنا کہ سورج غروب ہوجاتا ہےاورعرش عظیم والی ذات پاک کے تکوینی حکم کے سامنے سرنگوں اوراس کے ارادہ اورمرضی کے مطابق اوراس کے مقررکردہ قوانین ،حرکات کے ماتحت چلتا رہتا ہے۔اس کے بعدحدیث کے یہ الفاظ ہیں۔ ((فتساذن فيوذن لها.)) یعنی پھر اجازت طلب کرتا ہے اوراسے اجازت مل جاتی ہے۔ان الفاظ میں کوئی خرابی نہیں کونکہ یہ مسلم اورطے شدہ اصول ہے کہ اللہ تعالی کے اذن کے بغیر کوئی ذرہ بھی اپنی جگہ سے آگے حرکت نہیں کرتا۔جوکچھ ہوتا ہے وہ سب اسی کے قوانین فطرت اورراسی ہی کے
Flag Counter