Maktaba Wahhabi

84 - 660
مثلا وہ شکلیں بدل سکتے ہیں۔دورسے وسوسہ ڈال سکتے ہیں اورحدیث میں آتا ہےشیطان انسان کے خون کے اندرچلتا ہے اسی طرح کئی دوسری باتیں ہیں لہذا شیطان جوکہ اصل میں وہاں کا رہائش پذیر تھا اس لیے وہاں تک پہنچنا اوروہاں کی گفتگو سننا اوراس کے اوراس کی اولاد کے لیے کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا۔البتہ اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کا انتظام کیا ہےکہ جب بھی کوئی وہاں پہنچنے کی کوشش کرتا ہے تووہاں سے اس پر دھکتا ہواانگارہ پھینکا جاتا ہے اوراتنی قدرت ان کو اس وجہ سے ملی ہوئی ہے کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرنے کےلیے دن رات کوشاں ہوتے ہیں اورانسان کے امتحان کے لیے یہ(اجازت)ان کو قیامت کے دن تک ملی ہوئی ہے اس لیے وہ ملأالاعلی تک پہنچ کر ایک آدھی بات سن کر پھر اس میں کئی جھوٹ ملاکراپنے دھوکے بازنجومیوں کے کان میں ڈالتے ہیں جو خلق خدا کو ہر وقت گمراہ کرتےرہتے ہیں۔بس اس حقیقت پر اگرغورکیاجائے تو سوال حل ہوجائے گا۔ باقی رہی یہ بات کہ چاند چلتا رہتا ہے پھر راکٹ وہاں پر کیسے پہنچا؟تویہ سوال شاید کچھ غورفکرکئےبغیررکھاگیا ہے۔چاند برابرچل رہا ہے لیکن اس کی چال چلن اللہ تعالی کی طرف سے مقررہےاس رفتارپرچلتا ہے اس طرح نہیں کہ کوئی چیز اگر اس کے پیچھے سے آتی ہے تووہ دوڑ لگاکرتیز بھاگنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ پیچھے والااس تک نہ پہنچ سکے۔چاند کا معاملہ اس طرح نہیں ہے بلکہ اس کی رفتاررب کریم عزوجل کی طرف سے مقررکی ہوئی ہے لہذا وہ اپنی رفتار میں ہی چلتا ہے چاہے اس کے پیچھے کوئی آئے یانہ آئے۔اس بات کو سمجھنے کے بعد اب دیکھیں کہ ایک جیپ حیدآبادسےتقریباصبح٨بجے نکلتی ہے جو آدھے گھنٹے میں خیبرپہنچتی ہے اورخیبرحیدرآبادسے٤میل دورہےاس کے بعد ساڑھے ٨بجے حیدرآبادسےایک تیز رفتارکارنکلتی ہے جس کی رفتاراس جیب سےدگنی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا جس جگہ ٩بجے وہ جیپ پہنچے گی وہاں پر بعینہ اسی وقت ساڑھے٨بجے نکلی ہوئی کاربھی آکر پہنچے گی۔حالانکہ جیپ بھی چلتی رہی اورکاربھی اس کے پیچھے چلتی رہی لیکن چونکہ کارکی رفتارجیپ کی رفتارسےدگنی تھی۔یہ تو ہماراروزمرہ کا مشاہد ہ ہے اورواضح بات ہے معمولی سمجھ والا
Flag Counter