Maktaba Wahhabi

63 - 660
پڑھناکہاجاتا ہےکہ ایسا کرنے سے مطلوبہ حاجت پوری ہوجاتی ہے۔یا پھر سورۃ التوبہ کی آخری دوآیات یا ایک آیت کو بعد نماز عشاء ١۰١مرتبہ پڑھنا کہا جاتا ہے کہ یہ عمل قید اوردشمنی سے بچنے کے لیے مفید ہے ۔کیا اس طرح کے یہ اعمال شرعاً ناجائز ہیں؟میری سمجھ کے مطابق اس طرح کے وظائف کو اختیارکرنے میں شرعا ممانعت نہیں اورنہ ہی یہ بدعت کےزمرہ میں آتے ہیں بشرطیکہ انہیں سنت یاماثورنہ سمجھا جائے۔الغرض آپ دلائل کے ساتھ وضاحت کریں تاکہ اطمینان حاصل ہو؟بینواتوجرو! ! الجواب بعون الوھاب:اس کا جواب یہی ہے کہ آیات قرآنیہ یا اسماء الہی کو کسی خاص تعداداورکسی مخصوص اوقات میں بطوروظیفہ یا دینی خواہ دنیوی خیروبھلائی کے حصول کےلیے پڑھا جاسکتا ہے۔(جیسا کہ خود محترم نے سوال کے آخر میں فرمایاہے)بشرطیکہ اسےسنت ماثورہ نہ سمجھا جائے اورمقررہ تعدادکو لازم وواجب تصورنہ کیا جائے۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سفر میں تھے کسی قبیلہ کے سردارکوسانپ نے ڈس لیا پھر ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اس پر سورۃ الفاتحہ کا سات مرتبہ دم کیا اوروہ تندرست ہوگیا بالآخروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اوریہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایاکہ’’ماادراك انها رقية‘‘یعنی آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ فاتحہ رقیہ(دم)ہے؟اس نے عرض کیا:’’يارسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم شئي القي في روعي‘‘یعنی ایک چیز تھی جو میرے دل میں ڈالی گئی۔ اس صحيح حديث سے معلوم ہوا کہ صحابی رضی اللہ عنہ نے اس سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےیہ علم حاصل نہ کیا تھا کہ سورۃ فاتحہ دم ہے اورڈسے ہوئے شخص پر سات مرتبہ پڑھنا بھی اس صحابی کے دل میں القاء کی ہوئی بات کے ماتحت اسی تعدادمیں یہ سورۃ مبارکہ پڑھی۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ان دونوں باتوں کو بحال رکھا ۔لہذا یہ تقریری دلیل ہے کہ کوئی شخص قرآن کریم کی کوئی سورت یا ایک یا دوآیات کسی خاص مقدارمیں کسی مرض کی
Flag Counter