Maktaba Wahhabi

61 - 660
ہے باقی اگر تقسیم کا مطلب یہ ہے کہ الفاظ قرآنیہ کا کوئی ایسا مطلب ومعنی ہے جو قواعد وغیرہ کے ماتحت بالکل نہیں،یعنی اس کے حصول کے لیےکسب کی ضرورت نہیں توایسا مطلب ومعنی بالفاظ دیگر الہام ہوئے اورالہام وہی معتبر ہے جو شریعت کے موافق ہوباقی وہ الہام جو کتاب وسنت کے معارض ہے وہ قطعا قابل اعتبارنہیں،اس کے علاوہ ایسا الہام کوئی ان ائمہ کے ساتھ مخصوص نہیں جن کو عوام کالانعام نے زبردستی اورجبراًاپناقائد ورہبربنارکھا ہے اوران کی غیر مشروط اطاعت اپنے اوپر لازم قراردے دی ہے۔مطلب کہ اگر ایسا کوئی وہبی یا الہامی معنی ومطلب کسی خدا پرست انسان نے پیش بھی کیا ہے تو اسے بھی ظاہری شریعت پر پیش کیاجائے گا پھر اس کے موافق ہونے کی صورت میں وہ معنی ومطلب اس آیت یا حدیث کے اسرارمیں سے کوئی سرہی ہے جو کہ محض ایک اللہ کی طرف سے مزید انعام واکرام ہے وہ بات کوئی واجبات شرعیہ یا ایسی باتوں میں سے نہیں جن کا علم حاصل کرنا ہمارے لیے ایماناً ضروری ہے جب ان کا علم ازروئے ایمان ہمارے اوپر لازم نہیں ہے توپھر اس کے لیے تقلید کی کیاضرورت ؟اس پر خوب غوروتعمق کے ساتھ توجہ دیں۔ اوراگر اس تقسیم کا مقصد یہ ہے جیسا کہ کچھ ملحد اورزندیق لوگ کہتے ہیں کہ قرآن شریف کی ظاہری اورباطنی معنی ومطلب ہے یعنی جو حکم کسی آیت سے ظاہر طورپر معلوم ہورہا ہوتودوسری معنی ومطلب اس کے بالکل برعکس ہے جو کچھ چیدہ چیدہ بزرگوں اورائمہ عظام کومعلوم ہوتا ہے ۔مثلاً قرآنی حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ: ﴿وَٱلسَّارِ‌قُ وَٱلسَّارِ‌قَةُ فَٱقْطَعُوٓا۟ أَيْدِيَهُمَا﴾ (المائدة:٣٨) ’’چورمرداورعورت کاہاتھ کاٹ ڈالاجائے۔‘‘ اب کوئی بے دین اورملحد قسم کا آدمی یہ دعوی کرے کہ اس کا ظاہری مطلب تویہی ہےلیکن اس کا باطنی مطلب دوسرا ہے،پھروہ کوئی ایسا مطلب بیان کرے جو اس حکم ربانی کی صورت کو مسخ کردے توکیا وہ مطلب قالب اعتبار ہوگا؟کیا کوئی صاحب عقل ودانش ہوش وحواس کے صحیح سالم ہونے کی صورت میں ایسے اقدام پر جرات کرسکتا ہے؟ہاں اگر اس معانی
Flag Counter