Maktaba Wahhabi

455 - 660
’’ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں رکانہ بن عبدیزیدنامی ایک شخص نے اپنی بیوی کوایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیں جس کےبعدکافی غمگین ہواپھریہ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پیش کیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ سےدریافت کیا کہ آپ نےکیسے طلاق دی تورکانہ نے کہا کہ میں نےتین طلاقیں دی ہیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ دریافت کیا کہ کیا ایک ہی مجلس میں توصحابی نے جواب دیا جی ہاں! توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(اگرتونےایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں تویہ ایک ہی ہے) لہٰذا اگرآپ چاہیں تورجوع کرسکتے ہیں توعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ رکانہ اپنی بیوی سےرجوع کرکے اسے واپس لے آئے۔ ‘‘ اسی وجہ سےعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا مؤقف تھا کہ تین طلاقیں تین طہر(پاکیزگی کےایام)میں دینی چاہئیں۔ یعنی اگرکوئی اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے توہرمہینے پاکیزگی کےایام میں ایک طلاق دےاس طرح تین مہینوں میں طلاقیں ہوں گی۔ اوراگرایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیتے ہیں تویہ تین طلاقیں ایک ہی شمارہوگی اورایک اوردوطلاقیں رجعی ہوتی ہیں۔ لہٰذا طلاق کی عدت تین ماہ ہے اس مدت کے اندراندرخاونداپنی بیوی سےرجوع کرسکتا ہےاوراگرتین مہینوں کی مدت گزرجائے تونکاح ٹوٹ جائے گا، لیکن پھربھی طرفین کی رضامندی سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر مہربانی ہے کہ طلاق جیسے مبغوض معاملے میں بھی تحمل والامعاملہ اپنایااورجلد بازی نہیں کی۔ حالانکہ انسان ہمیشہ ایک ہی حالت میں نہیں ہوتابلکہ کبھی غصہ اورپریشانی کی وجہ سے جلدبازی میں اپنی بیوی کوکئی طلاقیں دے دیتا ہے اوراس طرح جتنی طلاقیں دی ہیں اگراتنی ہی شمارکی جائیں توطلاق دینے والے کو سوچنے اورغوروفکر کا موقع بھی نہ ملے۔ بعض مرتبہ مطلقہ عورت خاوندکی محبوبہ بھی ہوتی ہے لیکن اب ان کو گھرآبادکرنے کا کوئی موقع حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیےشریعت مطہرہ نے ایک مجلس کی کئی طلاقوں کوایک ہی شمارکیا ہے تاکہ طلاق دینے والے کو
Flag Counter