اوریہ حکم اس عورت کے لیے ہے جس کو حمل نہیں ہے اوراگرکوئی حاملہ ہے تواس کی عدت وضع حمل ہے جس طرح قرآن میں ہے:
﴿يَحِضْنَ ۚ وَأُو۟لَـٰتُ ٱلْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾ (الطلاق:٤)
’’یعنی حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل(بچہ پیداہونا)ہے۔ ‘‘
لیکن اگرحیض آتاہی نہیں صغرسنی یاکبرسنی کی وجہ سےتواس کی عدت تین مہینہ ہے جس طرح قرآن میں ہے:
﴿وَٱلَّـٰٓـِٔى يَئِسْنَ مِنَ ٱلْمَحِيضِ مِن نِّسَآئِكُمْ إِنِ ٱرْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَـٰثَةُ أَشْهُرٍۢ وَٱلَّـٰٓـِٔى لَمْ يَحِضْنَ﴾ (الطلاق:٤)
’’اوروہ عورتیں جوحیض سےنہ امیدہوچکی ہیں اگرتمھیں کوئی شک ہے توان کی عدت تین ماہ ہےیاجن عورتوں کاابھی حیض نہ آتاہو۔ ‘‘
بہرحال دوران عدت نکاح کرناجائز نہیں ہےجس طرح قرآن میں ہے:
﴿وَلَا تَعْزِمُوا۟ عُقْدَةَ ٱلنِّكَاحِ حَتَّىٰ يَبْلُغَ ٱلْكِتَـٰبُ أَجَلَهُ﴾ (البقرة:٢٣٥)
’’یعنی جب مقررہ عدت اپنے خاتمہ تک نہ پہنچ جائےتب تک نکاح کاارادہ نہیں کرو۔ ‘‘
هذا ماعندي و اللّٰہ اعلم بالصواب
سوال: کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ عبدالرحمٰن اورسموں نے آپس میں رشتہ داری کی اس طرح کے سموں نے اپناعوض عبدالرحمن کودیااورعبدالرحمٰن سے عوض لےکراپنےبھائی عبدالغنی کی شادی کروائی اس طرح پرکہ عبدالغنی اپنی بیٹی عبدالرحمٰن کودےگااوردوسری بیٹی سموں کواپنی بیٹی کےعوض دےگااس کے بعدعبدالغنی کی لڑکی پیداہوئی جوعبدالرحمن کودی گئی لیکن وہ فوت ہوگئی بعدازاں عبدالغنی کو دوسری لڑکی پیداہوئی جس کی مانگ سموں کررہا ہے لیکن اب عبدالرحمن عبدالغنی سے زبردستی دوسرے رشتہ کاتقاضاکررہاہے۔ شریعت محمدی کےمطابق بتائیں کہ لڑکی کا حقدارسموں ہوگایا عبدالالرحمن؟ بینوا توجروا!
|