Maktaba Wahhabi

433 - 660
جس کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہوناچاہئےکیونکہ شریعت میں ہدیہ دینے کی ترغیب آئی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جناب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواورایک دوسرے کوہدیہ دیتے تھے ۔ لہٰذا اس میں کوئی بھی قباحت نہیں ہونی چاہئے۔ یہ سوال نہیں ہوتا کہ خاص شادی کے موقعہ پر ہدیہ دینا کیسا ہےکیونکہ کہ ہدیہ کی مطلق ترغیب آئی ہے لہٰذا ہمارےلیے کوئی بھی سبب نہیں ہے کہ شادی کے موقعہ پراس کو خارج کردیں بلکہ یہ موقع یا ہدایاوتحائف کے دوسرے مواقع وہ سب اس میں شامل ہیں اوراس لینےدینے کا ہدایہ ہونا اس سے واضح ہے کہ یہ مقررنہیں ہے بلکہ آئے ہوئے احباب اپنی خوشی سےمرضی کے مطابق دیتے ہیں اگرکوئی نہیں دیتاتواس پر کوئی معیارنہیں ہے۔ کہ اس کو ولیمہ سے باہرنکالاجائے بہرحال اس لینے دینے پرہدیہ کی معنی بالکل صادق آتی ہے ، لہٰذا شادی کے موقع پر اس کو الگ کرنے والوں کو کوئی ایسی دلیل پیش کرنی چاہئے جواس موقع پر اس کو عمومی حکم سے الگ کرے۔ علاوہ ازیں اس عمومی حکم کے علاوہ خاص موقع پرہدیہ بھیجنے کی دلیل یہ ہے جودرج ذیل ذکرکی جاتی ہے۔ امام محدثین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح کتاب النکاح میں یہ باب باندھاہے۔ ’’باب الهدية العروس‘‘اس میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سےحدیث نقل کرتے ہیں کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سےشادی کی پھراس کے ولیمہ کے موقع پرحضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کی طرف حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہدیہ(جس میں ایک طعام جوکہ پنیرگھی اورکھجورکے ساتھ بنایاجاتاتھا)کےطوربھیجا۔ ‘‘(الحدیث) اس سے خصوصی طورپرمعلوم ہوا کہ شادی کے موقع پر بوقت ولیمہ شادی کرنے والے کوہدیہ دیاجاسکتا ہے ، پھرجوچاہے پیسے دے یا کھانے کی چیز دےیہی سبب ہے کہ امام محدثین جیسے محقق اورمرقق نے بھی اس پر ’’باب الهدية العروس‘‘باندھاہےفتدبر۔ بلکہ اس مسئلہ کے متعلق اتنا بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگرکوئی خوددےتویہ بطیریق اولیٰ
Flag Counter