Maktaba Wahhabi

406 - 660
ہےاوروہ مدلس راوی ہےاوراس حدیث میں عن کے ساتھ روایت کرتا ہے۔ ’’حدثنا‘‘يا’’سمعت‘‘کےالفاظ نہیں کہتا۔ لیکن اس کاجواب یہ ہے کہ تدلیس کی وجہ سےسندمیں ضعف ضعیف پیداہوتاہے، نہ کہ سخت ضعف اوراتناہلکاضعف کتنی ہی طریقوں سےدورہوسکتا ہے۔ مثلاً اصول حدیث کے جاننے والوں کو خوب معلوم ہے کہ اگرکسی مرفوع حدیث کی سندمیں ایساخفیف ضعف ہے تووہ دوسری حدیث اگرچہ وہ مرفوع نہیں موقوف ہویعنی صحابی کاقول ہوتواس سے وہ حدیث قوی ہوجاتی ہے اوراس کاہلکاضعف رفع ہوجاتا ہے توبعینہ اس مرفوع حدیث کی سند میں تدلیس کی وجہ سےہلکاساضعف پیداہواہے۔ جس کوحضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول موقوف نے جو کہ صحیح سند کے ساتھ ہے اس نے قوی کردیا ہے۔ لہٰذا وہ ضعف سے نکل کرحسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جائے گی اورحسن لغیرہ حدیث بھی صحیح حدیث کی طرح قابل حجت ہے۔ (کمالا يخفي علی ماھرالاصول) مگراس صورت میں ایسی حسن لغیرہ حدیث جو کسی صحیح حدیث کی مخالف ہوتوپھر وہ قابل نہیں ہوتی۔ لیکن اس مسئلہ میں دوسری کوئی صحیح حدیث ایسی نہیں ہے جو اس کے مخالف ہواس لیے یہ حدیث امام نووی اورحافظ ابن حزم وغیرہماکے مطابق حسن ہے اورقابل حجت ہے۔ (3):......ابن ماجہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابن ماجہ عبیداللہ بن موسی سےروایت کرتا ہے کہ : ((حدثناابراهيم بن اسماعيل عن عبد اللّٰہ بن واقدعن ابن عمررضي اللّٰہ عنه وعائشة رضي اللّٰہ عنها ان النبي صلي اللّٰہ عليه وسلم كان ياخذ من كل عشرين دينارا فصاعدا نصف دينار و من الاربعين دينارا دينارا.)) [1] حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما اورسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 20دینارمیں سے نصف دیناراورچالیس دیناروں میں سے ایک دیناربطورزکوٰۃ لیتے تھے۔
Flag Counter