Maktaba Wahhabi

337 - 660
وقت وتروں کے بعدپڑھاکرتے تھے۔ کیونکہ اس میں قطعاً مطلق بعدالوترکا بیان ہے اوراحادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عشاءکے بعد رات کے اول حصہ میں رات کے درمیانی حصہ میں اورآخررات میں وترپڑھاکرتےتھےیعنی آپ سےتینوں وقتوں میں رات کے اول ،اوسط اورآخر میں وترپڑھنا ثابت ہے۔ اور’’كان يصلي‘‘كا یہی متقاضی ہے ہمیشہ ورنہ کم ازکم اکثرتوضرورایساکرتےتھے۔ مقصدیہ کہ اس حدیث سےمعلوم ہواکہ جب بھی وترپڑھتے تھے(خواہ اول رات میں یااس کے آخری حصہ میں تودورکعت بیٹھ کرپڑھتے تھے۔) علاوہ ازیں خود مولانا صاحب نے ان دورکعت کے متعلق لکھا ہے کہ بیٹھ کر ان نفلوں کوشروع کرتے جب قرأۃ ختم ہوجاتی توکھڑے ہوجاتے اوررکوع کرتے اورسجدہ کرتے اس سے معلوم ہوا کہ وہ دو رکعتیں طویل ہوتی تھیں اوراس کی وضاحت مسلم وغیرہ کی روایت میں ہےلیکن اس حدیث میں ہے کہ وہ دو رکعتیں ہلکی (خفیفتین)ہوتی تھیں(اسی کی وضاحت اگلی حدیثوں میں آرہی ہے) اس سے معلوم ہو اکہ یہ وہ دورکعتیں نہیں تھیں جو تہجد کے وقت اس مخصوص طریقہ سےپڑھتے تھےاوریہ شبہ نہ کیا جائے کہ پھر تویہ حدیث مسلم شریف والی حدیث کےمتعارض ہوجائے گی کیونکہ مسلم شریف والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دورکعتیں لمبی ہوتی تھیں اوراس حدیث کا مفاد یہ ہے کہ وہ ہلکی ہواکرتی تھیں۔اس لیے کہ مقصود یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وترکےبعدہمیشہ دورکعت بیٹھ کرپڑھاکرتےتھے اب کبھی تووہ دورکعتیں ہلکی ہوتی تھیں اورکبھی لمبی اس مخصوص طریقہ پر جومسلم شریف کی حدیث میں واردہے اس میں تعارض کی کونسی بات ہے؟ اور دونوں جگہوں پرکان کالفظ وارد ہے اس سے بھی کوئی خرابی لازم نہیں آتی کیونکہ دونوں طریقے آپ سےدوام کےساتھ ثابت ہیں اوردوفعلوں کا اکثری (یعنی کثرت کےساتھ)ہونا کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں ہے کیونکہ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter