Maktaba Wahhabi

316 - 660
کردی لہٰذا یہ روایت قوی وجید ہے اسی لیے حافظ ذہبی بھی اس پر خاموش رہے ۔ و اللّٰہ اعلم اس حدیث سے اجتماعی طورپردعاکرنا مندوب معلوم ہوتا ہے۔اورحدیث میں’’ملأ‘‘کالفظ ہے جس سےہرجماعت مرادلی جاسکتی ہے خواہ وہ نمازفرض کی جماعت ہویاعلم وتبلیغ کے لیے اجتماع ہو یاکسی جلسہ کا اجتماع ہویا فوجی جماعت ہوان سب کو یہ لفظ شامل ہے کیونکہ جولفظ عام ہو اس کو بلاقرینہ یابلاخاص دلیل کےکسی ایک فردکے ساتھ مخصوص نہیں کیا جاسکتا اورچونکہ کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے معلوم ہوکہ فرض نماز کی جماعت اس سے مستثنیٰ ہے، لہٰذا یہ بھی اس میں یعنی اس لفظ کے عموم میں شامل رہے گا۔ اورکسی حدیث میں اب تک یہ دیکھنےمیں نہیں آیاکہ آپ نے فرض نمازکے بعدہاتھ اٹھاکردعاکرنے سے منع فرمایایاخود کبھی فرض نمازکےبعددعاکےلیے ہاتھ نہیں اٹھائے۔ یعنی نہ یہ واردہے (جتنا کچھ اب تک معلوم ہواہے)کہ آپ نے فرض نماز کے بعدہاتھ اٹھائے اورنہ یہ ہے کہ ہاتھ نہیں اٹھائے۔ اورعدم ذکرعدم وجود کو مستلزم نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہواکہ فرض نماز کےبعداجتماعی طورپردعاکرنانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی حدیث کےبموجب مندوب ومستحسن ہے اوراوپرمعلوم ہوچکاہےکہ ہاتھ اٹھانااحادیث کی روسے دعاکےآداب میں سے ہےاورمستحسن ومندوب ہے بہرحال ان دلائل سے راقم الحروف کےنزدیک فرض نماز کے بعد اجتماعی طورپردعاکرناجائز ہے۔ بلکہ اس کو مندوب کہہ سکتے ہیں البتہ اس کو نماز کے لوازمات سے سمجھنا اوریہ تصورکرلینا کہ اس کے سوانماز پوری ہی نہیں ہوتی یا جواس طرح دعا نہ کرےبلکہ اٹھ کرچلاجائے اس کو برابھلاکہنا یا س پر طعن وتشنیع کرنایہ ناجائز ہے اگرایساکرلیا جائے توہ بدعت ہوگی اورناجائز ہوگی۔ حضرت مولاناعبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے ’’تحفۃ الاحوذی شرح الترمذی‘‘میں بھی تقریباً اسی طرح لکھا ہے یعنی اگراس کو نماز کے لوازمات میں سے تصورنہ کیا جائے اورنہ کرنے والے پر نکیر بھی نہ ہوتویہ ان شاء اللہ جائز ہے۔ هذاماعندناوالعلم عندالله
Flag Counter