Maktaba Wahhabi

299 - 660
یہ بات علامہ صاحب نےعجیب لکھی ہےسعیدبن ابی ہلال ثقہ ہےاورجماعت نےان سےحجت لی ہے۔بخاری،مسلم وجمیع صحاح ستہ وغیرہاکےمصنفین نےان سےاحتجاج کیاہے۔ایسےراوی کےنام ساجی کی حکایت نقل کرکےاس کی تضعیف کااظہارانتہائی تہتک وتصرف ہےسب کوپتہ ہےکہ امام بخاری جس راوی سےحجت لیں،یعنی اس راوی کی روایت کواصولاًو احتجاجاً نہ کہ تبعاً واستشہاداً ذکرکریں وہ راوی بالکل ثقہ ہوتاہےاورسعیدبن ابی ہلال بھی ایسےراویوں میں سےہے۔ لہٰذاعلامہ صاحب کایہ قول ساقط ہے۔ حافظ ابن حجررحمۃاللہ علیہ ہدی الساری مقدمہ فتح الباری مع تحقیق ابن بازرحمۃاللہ علیہ ص٤۰٦میں تحریرفرماتےہیں: ((سعيد بن ابي هلال الليثي ابوالعلاءالمصري اصله من المدينة و تشابها ثم سكن مصروثقه ابن سعد و العقيلي وابوحاتم وابن خزيمة و الدارقطني و آخرون و شذ الباني فذكره في الضعفاء و نقل عن احمد بن حنبل انه قال ماادري اي شيي حديثه يخلط في الاحاديث وكيع ابومحمدبن حزم الباني وضعف سعيدبن ابي هلال مطلقاولم يصب في ذالك واللّٰه اعلم احتج له’الجماعة۔)) اس اقتباس میں دیکھومعلوم ہوگا کہ ابوحاتم جیسے متشددنے بھی اس کی توثیق بیان کی ہے ۔حافظ ابن حجررحمہ اللہ علیہ التہذیب میں فرماتے ہیں کہ’’صدوق لم ار لابن حزم في تضعيفه سلفا الا ان الساجي مكي عن احمد انه اختلط.‘‘ [1] لیکن ساجی کے نقل وحکایت میں نظرہے ،کیونکہ ساجی نے اس نقل کے ناقل اورحکایت کے حاکی کا نام نہیں لیاہے۔ لہٰذا یہ معلوم نہیں ہے کہ امام احمد سے یہ کس نے سنا ہے۔ لہٰذا ایسی غیر معتمدجرح کا کیا اعتبارہوسکتا ہے جب کہ اس کو ماہرفن مئوثق قراردےچکے ہیں۔
Flag Counter