Maktaba Wahhabi

232 - 660
علاوہ ازیں حدیث شریف میں ہے کہ جبریل علیہ السلام نے آکرمجھے نیندسےبیدارکیا اوروہاں سے لے جاکرزمزم کے کنویں کے پاس آئے اورمیری قلب (دل)کونکال کرپانی کےساتھ دھویاپھراس میں ایمان اورحکمت بھردی اورپھرواپس اسی جگہ رکھ دیااوروہاں سے باہرلے جاکربراق پرسوارکیا۔کیاروح کے لیے اس طرح کی تفصیلات ومعاملات کی ضرورت تھی؟معراج کاتذکرہ سورۃ النجم میں ہے کہ: ﴿وَلَقَدْ رَ‌ءَاهُ نَزْلَةً أُخْرَ‌ىٰ ﴿١٣﴾ عِندَ سِدْرَ‌ةِ ٱلْمُنتَهَىٰ ﴿١٤﴾ عِندَهَا جَنَّةُ ٱلْمَأْوَىٰٓ ﴿١٥﴾ إِذْ يَغْشَى ٱلسِّدْرَ‌ةَ مَا يَغْشَىٰ ﴿١٦﴾ مَا زَاغَ ٱلْبَصَرُ‌ وَمَا طَغَىٰ ﴿١٧﴾ (النجم:١٣تا١٧) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری مرتبہ اترتے وقت جبریل علیہ السلام کوسدرۃ المنتہی کےنزدیک دیکھااوروہ سدرۃ المنتہی مئومنین کی ہمیشہ رہنے کی جگہ جنت کے قریب تھی۔پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی کچھ آیات کبریٰ کامشاہدہ کیا اس مشاہدہ کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر مبارک نہ توحدسےمتجاوزہوئی اورنہ ہی سیدھی راہ سے ہٹی آخر روحانی معاملہ میں اس طرح چڑھنا اوراترنااورنظرکاحد سے متجاوزنہ ہونا وغیرہ کچھ بھی نہیں ہوتا یہ معاملہ توادھرہی بیٹھے بیٹھے مشاہدہ میں آتا ہے اس کے لیے سواری پراوپرنیچے اترنے کی باتوں کی کوئی ضرورت نہ تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس معراج کے علاوہ روحانی طورپریاخواب میں کئی مرتبہ مشاہدات کروائے گئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بیان توفرمائے لیکن ساتھ یہ فرماتے کہ میں نے خواب میں یہ دیکھا ہے لیکن چونکہ یہ معاملہ خواب سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس کاتعلق جسم سے ہے لہٰذا اس میں خواب کی تصریح نہیں فرمائی بلکہ اس میں خواب کے برعکس اوپرچڑھنے، اترنے وغیرہ کا ذکرہے۔ کیا ایک سلیم الفطرت انسان ان دونوں واقعات میں فرق اورتفاوت سمجھ نہیں سکتا؟باتیں تواوربھی زیادہ ہیں لیکن طوالت سے کام لینا مناسب نہیں صرف آخری ایک بات پراکتفاء کرتے ہیں۔اگریہ معاملہ بالفرض روحانی یاخواب کا ہوتاتوصبح کے وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سفراورمشاہدہ کا تذکرہ فرمایاتوکچھ ضعیف الایمان
Flag Counter