Maktaba Wahhabi

155 - 660
جگہ یا کنٹرول کا مقام ہوتا ہے وہاں سے یہ فائر کیے جاتے ہیں،جوجہاز وغیرہ کو نشانہ بناکراس کی تباہی کا سبب بنتے ہیں اوروہ کنٹرولنگ اسٹیشن سے طاقتوردوربینی(Powerful tele scope)کے ذریعے مشاہدہ بھی کرتے ہیں کہ وہ واقعی نشانے پر لگے ہیں یا نہیں۔اس ایجادسےبھی ظاہرہواکہ اول یہ میزائل کن کاریگروں نے بنائے ،پھر ان کے رکھنے والوں نے ایک خاص نشانے پر فائر کیا۔ نہ یہ سارے خودبخود وجود میں آئے اورنہ ہی وجودمیں آنے کے بعد خودحرکت میں آئے اورنہ ہی مطلوبہ جگہ پر خود بخود جاکرلگے،یہ بالکل واضح ہے ،پھر آخراس کائنات کے ان اتنے بڑے اجرام فلکیہ کے بارے میں یہ احمقانہ خیال ان حضرات کو کس طرح آیا کہ وہ خود بخود وجود میں آئے اورخود ہی اپنے دائرے میں متحرک ہوگئے اورہزاروں سال گزرنے کے باوجود نہ ان کی حرکت میں فرق آیا اورنہ ہی اپنے مدارسےایک انچ بھی ہٹے ہیں۔کیا یہ عقلمندوں کی گفتارہے یا مجنون کی ؟یہی حقیقت ہے جس کی طرف یہ آیت کریمہ رہنمائی کرتی ہے: ﴿إِنَّ ٱللَّهَ يُمْسِكُ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضَ أَن تَزُولَا ۚ وَلَئِن زَالَتَآ إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّنۢ بَعْدِهِۦٓ ۚ إِنَّهُۥ كَانَ حَلِيمًا غَفُورً‌ۭا﴾ (الفاطر:٤١) یعنی تمام فلکی اجرام اورزمین کو اللہ تعالیٰ ہی اپنے مدارمیں اپنی جگہ پر روکے ہوئےہے۔ورنہ اگروہ اپنی جگہ سے ہٹتے توکوئی بھی ان کو روک نہیں سکتا۔ اوراگروہ اپنی جگہ سے ہٹتے توجانداراشیاءکاکیا حال ہوتا،اس کے تصورکرنے سے ہی کپکپی شروع ہوجاتی ہے۔اسی وجہ سے آیت کریمہ کے آخر میں فرمایاکہ ’’بیشک اللہ تعالیٰ بردباراورگناہ بخشنے والاہے۔‘‘یعنی اسی وجہ سے بندوں کے گناہوں کے باوجود ان اجرام کوروکے ہوئے ہے اوران کو چھوڑتا نہیں ہے،اس لیے کہ مخلوق نہ تباہ ہوجائے۔انسان کی کوئی بھی چیز کتنی ہی بڑی محنت اورکاریگری کے ساتھ کیوں نہ بنائی گئی ہو، خواہ مشینری ہو،انجن ہو،ہوائی جہازہویاکوئی اورچیزہو،لیکن وہ دائمی طورپرنہیں چل سکتی ۔ایک مکینک کسی کو مشین کو چلاتودیتا ہے ،لیکن وہ چل چل کرخراب یانقص والی بن جاتی ہے،لیکن وہ مشین نہ خود بنی اورنہ ہی
Flag Counter