خالق اورمخلوق کی صفات میں صرف لفظی اشتراک ہے باقی معنی اورمفہوم کے لحاظ سے مخلوق کی صفات اس بے مثل ذات پاک کی صفات سے کوئی اشتراک نہیں رکھتی مثلا انسان کو بھی سمیع اوربصیر کہا گیا ہے جس طرح سورۃ الدہر کے اندر اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿إِنَّا خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَـٰهُ سَمِيعًۢا بَصِيرًا﴾ (الدھر:٢)
’’یعنی انسان کو بھی سننے والااوردیکھنے والابنایاگیا ہے۔‘‘
اورہاں’’سمیع اوربصیر‘‘اللہ تعالیٰ کی بھی صفات ہیں مگر ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سورہ شوریٰ کے اندرفرماتے ہیں:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ (الشوری: ۱۱)
’’کہ اللہ تعالی سننے والااوردیکھنے والاہے لیکن اس کا سننا اوردیکھنا بے مثل ہے۔‘‘
یعنی سننے اوردیکھنے میں ہماری طرح آنکھوں اورکانوں کا محتاج نہیں ہے ۔یہی حکم اللہ تعالی کی باقی تمام صفات کا ہے ۔مثلاً اللہ کا کلام کرنا، اللہ کا غضب اوررضا مندی،بندوں سے محبت کرنا ان پر غصہ کرنا۔
ید(ہاتھ)عین(آنکھ)وجہ(چہرا)وغیرہ تمام کو ویسے ہی ماننا ہے جس طرح کتاب وسنت میں وارد ہوا ہے ۔نہ ان کے اندر تاویل کی جائے گی اورنہ ہی ان کا معنی مفہوم ایسا لیاجائے گا جو مخلوق سے مشابہت کی طرف منتج ہو، درحقیقت اللہ تعالیٰ کی صفات بھی متشابہات کے باب سے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان متشابہات کے نزول اوربیان کا آخر مقصدکیاہے کہ ہم انسانوں کو ان کے پورے مفہوم اورکیفیت کاعلم ہی نہیں؟تواس کا جواب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی معرفت صرف اس کی صفات کے علم سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہیں سکتے،مثلاً کسی ملک کا بادشاہ ہویا دوسری کوئی بڑی ہستی ہو وہاں تک لوگوں کی رسائی نہ ہو اوراس کے متعلق واقفیت صرف اس کی صفات سے ہوسکتی ہو،یعنی ہمیں علم کے صحیح ذرائع سے معلوم ہوکہ وہ بادشاہ عدل وانصاف والا ہے ،اپنی رعیت پر رحم کرنے
|