اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے امت محمدیہ سے خطاب فرمایاہے کہ تمہیں بہترین امت بناکرپیداکیا ہے کہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہوبرائی سے روکتے ہواس آیت میں امت مرحومہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے صرف اس وجہ سے کہ اس امت میں دعوت وتبلیغ کاکام موجود ہے۔(اچھے کاموں کی تلقین کرنا اوربرے کاموں سے روکنا)یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس امت کے سب لوگ عالم نہیں ہیں اورنہ ہی ہوسکتے ہیں جب کہ اس امت کے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو لاعلم اورجاہل ہیں بلکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو علم سےناآشنااورناواقف ہیں تبلیغ کا اصل معنی یہ ہے کہ ہراچھے کام کا حکم دینا اورہر برائی سے روکنایہ ہر مسلمان کا فریضہ ہے ۔ہر شخص بغیر علم کے تبلیغ کرسکتا ہے جیسا کہ حدیث میں بھی ایسا حکم ارشادہوا ہے:
((عن عبداللّٰه بن عمررضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللّٰه عليه وسلم قال بلغواعني ولوآية------الخ)) [1]
’’سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھ سےجوسنواسےآگےپہنچاؤ اگرچہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس نے بھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا وہ دوسروں تک پہنچائے۔‘‘
ایک اورحدیث میں اس طرح کا حکم ارشادہوا ہے :
((الاليبلغ الشاهد الغائب اوكماقال عليه السلام.)) [2]
حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر عام وخاص سے خطاب کرتے ہوئےارشادفرمایااے لوگو! میری اس نصیحت کو جو لوگ حاضر ہیں غیر حاضر تک پہنچائیں اسلام کے پھیل جانے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے عرصہ قلیل میں تمام دنیا تک پہنچ کربے مثال ترقی کی جس کااصل سبب بھی یہی ہے کہ جو بھی صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
|