زمین پر قبلہ رخ کھڑے ہو جاتے۔ بہت دیر تک اس طرح کھڑے ہو کر دعائیں کرتے رہتے۔ پھر جمرہ عقبہ کی رمی کرتے لیکن وہاں (دعا کیلئے) ٹھہرتے نہیں تھے اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ (عن سالم بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ)
﴿وضاحت: د سویں ذو الحجہ کو کنکریاں سورج نکلنے کے بعد لیکن زوال سے پہلے پہلے ماریں اور باقی ایام تشریق میں سورج ڈھلنے (زوال) کے بعد ماریں (فتح الباری)﴾
299۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز (روانگی حج والے دن) محصب میں پڑھی پھر کچھ دیر کیلئے سو گئے اسکے بعد سوار ہو کر بیت اﷲ کی طرف گئے اور اسکا طواف (وداع) کیا۔
(عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ )
﴿وضاحت: محصب ایک میدا ن کانام ہے جو مکہ اور منیٰ کے درمیان ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں آرام کیلئے قیام فرمایا تھا یہاں ٹھہرنا حج کا کوئی رکن نہیں ہے﴾
300۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ایک عمرہ کے بعد دو سرا عمرہ دونوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے ا ور حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں۔ ‘‘ (عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
﴿وضاحت: جس حج میں آدمی گناہ نہ کرے، ریا نہ ہو اور جس کے بعد آدمی گناہوں سے بچا رہے بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوتا ہے﴾
301۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب جہاد یا حج یا عمرے سے لوٹتے تو ہر چڑھائی پر چڑھتے وقت تین بار اَللّٰہُ اَ کْبَرُ کہتے اور (اپنے شہر واپس آنے کے بعد) یہ پڑھتے :
لَآ اِ لٰہَ اِ لَّا ا للّٰہُ وَ حْدَ ہٗ لَآ شَرِ یْکَ لَہٗ لَہٗ ا لْمُلْکُ وَ لَہٗ ا لْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِ یْرٌ آ ئِبُوْ نَ تَآ ئِبُوْ نَ عَابِدُ وْ نَ لِرَ بِّنَا حَامِدُ وْ نَ صَدَ قَ ا للّٰہُ وَ عْدَ ہٗ وَ نَصَرَ عَبْدَ ہٗ وَ ھَزَ مَ ا لْاَ حْزَ ا بَ وَ حْدَ ہٗ
’’اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی بادشاہت ہے
|