کتا ب ا لسلم .... بیع سلم کا بیان
٭ سلم، ایسی بیع ہے جس میں قیمت پہلے دی جاتی ہے سامان بعد میں حوالے کیا جاتا ہے ضروری ہے کہ جنس کی نوعیت، مقدار، بھاؤ اور تاریخ ادائیگی مجلسِ بیع میں ہی طے کر لی جائے یہ بیع جائز ہے جس بیع میں تمام مذکورہ شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری نہ ہو تو وہ بیع ناجائز ہے۔
347۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اور لوگ کھجوریں دو برس کی میعاد پر سلم کیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب کسی چیز میں کوئی سلم کرے تو معین ناپ تول اور میعاد ٹھہرا لیا کرے ‘‘
348۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے کھجور کے درخت کے بارے میں بیع سلم کے متعلق پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’درخت پر پھل کو بیچنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک کے لئے منع فرمایا تھا جب تک وہ کھانے کے قابل نہ ہو جائے یا اس کا وزن نہ کیا جا سکے۔‘‘
349۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے اُدھار غلہ خریدا اور اپنی لوہے کی زرہ اس کے پاس گروی رکھو ا دی تھی۔ (عن عائشہ رضی اللہ عنہا)﴿وضاحت: کوئی چیز بطور ضمانت رکھوانا جائز ہے۔ اسی طرح مقروض کا ضامن بننا یا اس کو قرض دینا دونوں ہی بہت بڑے ثواب کے کام ہیں ﴾
کتا ب ا لشفعۃ .... شفعہ کا بیان
٭ فروخت کے وقت شریک یا ہمسایہ کے حقِ خرید کو حقِ شفعہ کہتے ہیں فروخت کرتے وقت پڑوسی یا حصّہ دار کو آگاہ کر دینا چاہیے لیکن پڑوسی یا شریک کو مارکیٹ کی قیمت پر سودا کرنا چاہیے۔ ناجائز دبانا درست نہیں ہے ایک دفعہ بتا دینے کے بعد اگر پڑوسی یا پارٹنر نہ خریدے تو بعد میں حق شفعہ نہ رہے گا۔
350۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ کا حکم دیا جس کی تقسیم نہ ہوئی ہو جب حد بندی ہو جائے اور راستے بدل دئیے جائیں پھر حق شفعہ باقی نہ رہے گا۔ (عن جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہما)
﴿ وضاحت: یعنی جب سودا ہوجائے تو پھر حق شفعہ ختم ہوجاتا ہے ﴾
|