Maktaba Wahhabi

90 - 308
کتا ب ا لمنا سک .... حج اور عمرہ کا بیان ٭ حج کی فرضیت اور اس کی فضیلت کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: وَ لِلّٰہِ عَلَی ا لنَّا سِ حَجِّ ا لْبَیْتِ منِ ا سْتَطَا عَ اِ لَیْہِ سَبِیْلًا وَ مَنْ کَفَرَ فَاِ نَّ ا للّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ ا لْعٰلَمِیْنَ ’’لوگوں پر اﷲ تعالیٰ کیلئے بیت اﷲ کا حج کرنا فرض ہے جس کو وہاں تک راہ مل سکے (یعنی مالی وسائل دستیاب ہوں)اور جو نہ مانے(باوجود قدرت کے حج نہ کرے) تو اﷲ تعالیٰ سارے جہاں سے بے نیاز ہے‘‘ (3:97) ﴿وضاحت: مرد یا عورت یا دونوں کے پاس جس دن اتنا پیسہ آجائے کہ وہ حج کے اخراجات برداشت کر سکیں تو ان کو اُسی سال حج کر لینا چاہیے۔ اگر مرد کے پاس صرف اتنا پیسہ ہو جائے کہ صرف وہ ہی حج کر سکتا ہو تو اس کو حج اسی سال کر لینا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ پیسہ ختم ہو جائے اور وہ حج نہ کر سکے اور اﷲ تعالیٰ کا مقروض ہو کر مرے۔ جو لوگ دن رات دنیاوی کاموں میں مصروف رہتے ہیں اور حج (باوجود استطاعت کے) نہیں کرتے تو ان کا ایمان سخت خطرہ میں ہے مال ہونے کے باوجود حج نہ کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ وقت ہونے کے بعد نماز نہ پڑھنا ﴾ 276۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ لوگوں نے تو عمرہ بھی کر لیا اور میں نے عمرہ نہیں کیا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اپنی بہن (عائشہ رضی اللہ عنہا)کو لے جاؤ اور تنعیم (مکہ میں ایک جگہ کا نام ہے جہاں آج کل مسجد عائشہ بنی ہوئی ہے) سے انہیں عمرہ کرا لاؤ۔ چنانچہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے اونٹنی پر ان کو اپنے پیچھے بٹھا کر عمرہ کر ا یا ‘‘۔ (عن قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ) 277۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم سمجھتے ہیں کہ جہاد سب نیک اعمال سے بڑھ کر ہے تو کیا ہم بھی جہاد نہ کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ نہیں بلکہ جہاد (تمہارے لئے) حج مبرور ہے‘‘۔﴿وضاحت: حج مبرور وہ حج ہے جو خالص اﷲ تعالیٰ کی رضا کیلئے کیا جائے اس میں ریا کاری کا دخل نہ ہو اور حج کے دوران (اوّل تا آخر) کوئی گناہ نہ کیا جائے (فتح الباری)﴾
Flag Counter