کے قریب (سویا ہوا)تھا اسلئے انہیں اندیشہ ہوا کہ کہیں گھوڑا اسے کچل نہ دے ا نہوں نے سلام پھیر کراپنے بیٹے کو اپنے پاس کھینچ لیا پھر انہوں نے جب سر اٹھا کر دیکھا تو آسمان نظر نہ آیا(بلکہ ایک بادل سا نظر آیا جس پر چراغ جل رہے تھے)۔ صبح انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر سارا واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن حضیر( رضی اللہ عنہ)!تم پڑھتے رہتے۔ اے ابن حضیر( رضی اللہ عنہ)تم پڑھتے رہتے،انہوں نے عرض کیا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے بیٹے یحییٰ کے بارے میں خطرہ محسوس ہوا تھا کہ کہیں گھوڑا اسے کچل نہ دے کیونکہ یحییٰ گھوڑے کے بالکل قریب(سویا ہوا) تھا اس لئے سر اٹھا کر میں نے ادھر خیال کیا اور پھر آسمان کی طرف سر اٹھایا تودیکھا کہ ایک عجیب قسم کی چھتری ہے جس میں چراغ روشن ہیں پھر میں باہر آگیا تو پھر میں وہ بادل کا سایہ نہ دیکھ سکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جانتے ہو وہ بادل کا سایہ کیا تھا ؟ حضرت اسید رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ فرشتے تھے جو تمہاری آواز سن کر قریب آگئے تھے اور اگر تم پڑھتے رہتے تو صبح لوگ انہیں دیکھتے اور وہ ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہوتے۔
607۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ قابلِ رشک د و آدمی ہیں ایک وہ جسے اﷲتعالیٰ نے قرآن دیا اور وہ دن رات اسے پڑھتا ہو سو اس کا ہمسایہ اس طرح رشک کر سکتا ہے کاش اس شخص کی طرح مجھے بھی قرآن دیا جاتا تو میں بھی اسے پڑھ کر اسی طرح عمل کرتا جسطرح فلاں نے کیا ہے دوسرا وہ شخص جسے اﷲتعالیٰ نے رزقِ حلال دیا ہو اور وہ اسے راہِ حق میں خرچ کرتا ہے تو اس پر کوئی آدمی اسطرح رشک کرسکتا ہے کہ کاش مجھے بھی ایسی ہی دولت ملتی تو میں بھی اسی طرح خرچ کرتا جسطرح فلاں خرچ کرتا ہے۔(عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
﴿وضاحت :رشک کر نا اسطرح جائز ہے کہ دو سرے کو جو اﷲتعالیٰ نے نعمت دی ہو اسکی آرزو کرے جبکہ دو سرے کی نعمت کا زوال چاہنا حسد ہے جو گناہ کبیرہ ہے﴾
608۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھتا اورسکھاتاہے....﴿وضاحت :اس حدیث کی و جہ سے حضرت ابو عبدالرحمٰن السلمی رحمہ اللہ اپنی
|