کے پاس آئے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا پانی نہیں رہا اب کیا کریں ؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں پر تشریف لا کر اس کی منڈیر پر بیٹھے فرمایا اس کے پانی کا ایک ڈول لاؤ لوگ لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب مبارک اس میں ڈال دیا اور اﷲتعالیٰ سے دعا کی پھر فرمایا ایک گھڑی خاموش رہو اس کے بعد اس کنوئیں کے پانی سے تمام آدمیوں نے اور جانوروں نے اپنے آپ کو سیراب کر لیا پھر وہاں سے چل کھڑے ہوئے۔
569۔حضرت یزید بن ابی عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے کہا تم نے صلح حدیبہ کے و قت کس بات پر رسول ا ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی؟ ا نہوں نے کہا ’’موت پر‘‘
570۔حضرت عبداﷲ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عمرہ کیا تو ہم بھی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کیا ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طواف کیا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا و مروہ کے درمیان میں چلے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آڑ کیئے ہوئے تھے (کہ کہیں)ایسا نہ ہو کہ مکّہ کا کوئی مشرک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر دے۔
571۔حضرت یزید بن ابی عبید رضی اللہ عنہ نے کہاکہ میں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پنڈلی میں ایک زخم کا نشان دیکھا میں نے پوچھا ابو مسلم رضی اللہ عنہ (حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) یہ نشان کیسا ؟ انہوں نے کہا یہ مجھے غزوہ خیبر کے دن لگا تھا لوگ کہنے لگے سلمہ رضی اللہ عنہ مارے گئے (ایسی سخت مار لگی) پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار اس پر دم کیا اسکے بعد مجھے آج تک اس کی تکلیف نہیں ہوئی۔
572۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہاکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں سفر شروع کیا اور روزے رکھتے رہے جب مقامِ عسفان پہنچے تو دن کے وقت پانی منگوایا اور پی لیا تاکہ لوگ دیکھ لیں (کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کھول لیا ہے)۔ پھر مکہ پہنچنے تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ رکھا بھی ہے اور روزہ نہیں بھی رکھا ہے۔ جس کا جی چاہے روزہ رکھے۔ جس کاجی چاہے نہ رکھے
|