Maktaba Wahhabi

157 - 308
والوں کا امتحان لیا تھا (پڑھیے 7:116۔121 اور 20:65۔70)﴾ 507۔حدیث قدسی ہے کہ پہلی امتوں میں ایک شخص تھا اس کو ایک زخم لگا اس نے چھری لے کر اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا خون بہتا رہا۔ رکا ہی نہیں۔ یہاں تک کہ وہ مر گیا اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:۔’’ اس شخص نے جلدی کر کے جان دی (حرام موت مرا) میں (اﷲ تعالیٰ) نے بھی بہشت اس پر حرام کر دی ہے (عن جندب بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ) ﴿ وضاحت: ہماری جان ایک امانت ہے جو اﷲ تعالیٰ نے ہمارے حوالے کی ہے لہٰذا خود کشی کرنے والے پر جنت حرام ہے اسلئے اس کی امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہئے﴾ 508۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلی امتوں میں ایسے لوگ گزرے ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتا تھا (گو وہ پیغمبر نہ تھے) میری امت میں اگر کوئی ایسا ہو تو عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ ہوں گے۔(عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ) 509۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بنی اسرائیل میں ایک شخص نے 99 آدمیوں کو مار ڈالا تھا پھر (نادم ہو کر) مسئلہ پوچھنے نکلا ایک درویش کے پاس آیا اس سے پوچھا کیا میری توبہ قبول ہو گی؟ اس نے کہا نہیں یہ سنتے ہی اس نے اس کو بھی مار ڈالا (100 قتل پورے کر دئیے) پھر مسئلہ پوچھتا پوچھتا چلا۔ ایک دوسرے راہب نے کہا (ہاں)! ’’تو فلاں بستی (نصرہ) میں چلا جا(اس بستی میں نیک لوگ رہتے تھے۔ توبہ کا کوئی راستہ بتا دینگے‘‘۔ وہ اس بستی کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستہ میں اسکی موت آ پہنچی (مرتے مرتے) اس نے اپنا سینہ اس بستی کی طرف جھکا دیا۔ اب رحمت اور عذاب کے فرشتے (اسے ساتھ لے جانے کیلئے) جھگڑنے لگے۔ اﷲ تعالیٰ نے نصرہ بستی (جہاں وہ توبہ کیلئے جا رہا تھا) کو یہ حکم دیا اس شخص سے نزدیک ہو جا اور دوسری بستی کو جہاں سے وہ نکلا تھا یہ حکم دیا اس سے دور ہو جا۔ پھر فرشتوں سے فرمایا ایسا کرو جہاں یہ مرا ہے وہاں سے دونوں بستیاں ناپو (ناپا) تو دیکھا وہ نصرہ سے ایک بالشت زیادہ نزدیک ہے پھر وہ بخش دیا گیا۔‘‘ (عن ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ)﴿ وضاحت: صحیح مسلم کی حدیث میں اتنا زیادہ ہے کہ ’’رحمت کے فرشتوں نے کہا
Flag Counter