وہی کرتہ ان کو پہنا دیا اور یہی سبب تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کرتہ اتار کرعبد ا ﷲ بن اُ بی کو (اس کے مرنے کے بعد) پہنانے کیلئے دے دیا تھا (عن جابر بن عبد ا ﷲ رضی اللہ عنہ).... ﴿ وضاحت: اس کے بیٹے کی خواہش پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کرتا دیا تھا۔ ابن عینیہ نے کہا عبد اﷲ بن اُ بی کا احسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے احسان کا بدلہ چکا دینا چاہا (تاکہ منافق کا احسان نہ رہے) قیدیوں اورغیر مسلموں کے ساتھ ہر اخلاقی اور انسانی سلوک کرنا ضروری ہے یہی تعلیمِ اسلام ہے﴾
456۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑائی ( فتح مکہ) میں ایک عورت کو دیکھا جو قتل کی گئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے ناگواری کا اظہار فرمایا۔ (عن عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ )
﴿وضاحت: جہاد میں قصداً عورتوں اور بچوں کو مارنا اسلام میں ناپسندیدہ ہے لیکن غیر ارادی طور پر قتل ہو جائیں تو اس پر مواخذہ نہیں ہے﴾
457۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ (مسلمان) قیدی کو چھڑاؤ اور بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور بیمار پرسی کرو ‘‘ (عیادت کیلئے جاؤ)۔ (عن ابی موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ )
﴿ یہ تینوں کام مسنون ہیں آپ بھی کریں ﴾
458۔ حضرت عمر بن میمونہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (مرتے وقت) کہا: میرے بعد جو خلیفہ بنے میں اسکو یہ وصیت کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ اور اسکے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا (ذِمّی کافروں سے) جو عہد ہے اسے پورا کرے (معاہدہ پورا کرنا خواہ کافر سے ہو یا مسلمان سے نہایت ضروری ہے) اور ان کو بچانے کیلئے (دوسرے کافروں سے) لڑے اور ان کو طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دے (جتنا ہو سکے اتنا ہی جزیہ لے) ﴿وضاحت: جزیہ کے بدلہ میں حکومت ان کافروں کی حفاظت کرتی ہے اور وہ تمام شہری سہولتیں بھی دیتی ہے جو مسلمانوں کو ملتی ہیں۔ مسلمان زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ عام طور پر زکوٰۃ کی رقم جزیہ سے زیادہ ہوتی تھی یعنی مسلمان حکومت کافروں سے جزیہ کم لیتی تھی اور مسلمان بیت المال میں زیادہ رقم دیتے تھے جب کہ سہولتیں دونوں کیلئے برابر ہوتی تھیں ﴾
|