۳۔ صحیح لغیرہ
۱۔ ’’صحیح لغیرہ‘‘ کی تعریف:
یہ وہ ’’حَسَنٌ لذاتہ‘‘ حدیث ہے جس کو اسی جیسے یا اس سے بھی قوی کسی دوسرے طریق سے روایت کیا جائے۔‘‘[1] اور اس حدیث کو ’’صحیح لغیرہ‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ اس حدیث میں صحت خود اس حدیث کی سند سے نہیں آتی بلکہ دوسری سند کے اس کے ساتھ ملا دینے سے آتی ہے۔ ہم اس کو درج ذیل " Mathematical Equation" (مساواتِ ریاضیّہ) کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں :
’’حسن لذاتہ + حسن لذاتہ = صحیح لغیرہ‘‘
(حسن لذاتہ جمع حسن لذاتہ برابر ہے صحیح لغیرہ کے)
(صحیح لغیرہ is equal to حسن لذاتہ Plus حسن لذاتہ)
۲۔ ’’صحیح لغیرہ‘‘ کا مرتبہ:
یہ حدیث مرتبہ میں ’’حسن لذاتہ‘‘ سے اوپر جب کہ ’’صحیح لذاتہ‘‘ سے کم ہوتی ہے۔
۳۔ ’’صحیح لغیرہ‘‘ کی مثال:
’’صحیح لغیرہ‘‘ کی مثال ترمذی کی یہ حدیث ہے:
’’محمد بن عمرو عن ابی سلمۃ عن ابی ھریرۃ اَنَّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لَوْلَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰی اُمَّتِیْ لَاَمَرْتُھُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلٰوۃٍ‘‘[2]
’’محمد بن عمرو ابو سلمہ سے اور وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا ڈر نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔‘‘
اس حدیث کی اسناد کے بارے میں ابن صلاح کہتے ہیں :
’’محمد بن عمرو بن علقمہ اپنے صدق اور صیانت میں مشہور ہیں البتہ ان کا شمار ’’مُتْقِن‘‘ رواۃ میں نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ بعض محدثین نے انہیں حافظہ کی خرابی کی بنا پر ضعیف تک کہہ دیا ہے، جب کہ بعض دیگر محدثین نے ان
|