مرجع نقطے ہیں ) جب کہ ان کے آباء کے اسماء (تلفظ اور کتابت دونوں میں ) متفق ہیں ۔ (اور یہ متشابہ کی دوسری قسم کی مثال ہے جو پہلی قسم کے بالعکس ہے)۔
۳۔ متشابہ کی معرفت کا فائدہ:
(محدثین نے اس نوع کے متعدد فوائد شمار کرائے ہیں ) اس نوع کے فوائد ان امور میں پنہاں ہیں :
رواۃ کے اسماء کا ضبط ہونا۔
ان کے تلفظ اور نطق میں التباس واشتباہ نہ لگنا۔
تصحیف اور وہم (جیسی نازک لغزشوں ) میں مبتلا نہ ہونا۔
۴۔ متشابہ کی چند دیگر انواع:
متشابہ کی چند دیگر انواع بھی ہیں (جنہیں محدثین نے ذکر کیا ہے) ہم ان میں سے چند اہم انواع کو ذکر کریں گے۔ جن میں سے چند یہ ہیں :
الف: …ایک صورت یہ ہے کہ راوی اور اس کے والد کا نام ایک ہو مگر والد کے نام میں ایک یا دو حرفوں کا فرق ہو جیسے ’’محمد بن حُنَین‘‘ اور ’’محمد بن جُبَیر۔‘‘
ب: …ایک صورت یہ ہے کہ راوی اور اس کے باپ کا نام تلفظ اور کتابت دونوں میں یکساں ہو مگر اختلاف تقدیم اور تاخیر کی صورت میں ہو۔ اس کی بھی آگے دو صورتیں ہیں :
۱۔ تقدیم اور تاخیر دونوں ناموں میں ہو جیسے ’’اسود بن یزید‘‘ اور ’’یزید بن اسود‘‘[1]
۲۔ اور کبھی یہ تقدیم پورے نام میں نہیں بلکہ صرف حروف میں ہوتی ہے۔ جیسے ’’ایوب بن سَیَّار‘‘ اور ’’ایوب بن یَسَار‘‘ (کہ یہاں لفظِ ’’سیار‘‘ اور ’’یسار‘‘ میں یا اور سین میں تقدیم و تاخیر ہے)۔
۵۔ متشابہ پر مشہور تصانیف:
الف’’تلخیص المتشابہ فی الرَّسم وحمایۃ ما اشکل منہ عن بوادر التصحیف والوھم‘‘ یہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا علمی شاہکار ہے۔
ب: …’’تالي التلخیص‘‘: یہ بھی خطیب رحمہ اللہ کی ہی تصنیف ہے۔ اور اسے پہلی کتاب کا تتمہ یا حاشیہ ہے۔ یہ دونوں کتابیں نہایت عمدہ ہیں اور اس باب میں ان جیسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔ [2]
|