Maktaba Wahhabi

76 - 292
یا ’’صحیح‘‘ میں سے کوئی حکم راجح نہیں ۔[1] ۷۔ امام بغوی رحمہ اللہ کا ’’المصابیح‘‘[2]کی احادیث کو (اپنی ایک خاص اصطلاح میں ) تقسیم کرنا: امام بغوی رحمہ اللہ نے اپنی (مشہور زمانہ) کتاب ’’المصابیح‘‘ میں اپنی ایک خاص اصطلاح کو درج کیا ہے، وہ یہ کہ امام موصوف ’’صحیحین‘‘ یا دونوں میں سے کسی ایک کتاب کی حدیث کی طرف لفظ ’’صحیح‘‘ کے ساتھ اور ’’سننِ اربعہ‘‘ کی احادیث کی طرف لفظ ’’حسن‘‘ کے ساتھ اشارہ کرتے ہیں ۔ مگر یہ اصطلاح عامۃ المحدثین کی اصطلاح کے مطابق درست نہیں کیوں کہ ’’سننِ اربعہ‘‘ میں صحیح، حسن، ضعیف اور منکر ہر قسم کی روایات پائی جاتی ہیں ۔ اسی لیے علامہ ابن صلاح رحمہ اللہ اور امام نووی رحمہ اللہ نے اس (خود ساختہ اصطلاح کے غیر مستقیم ہونے) کی طرف اشارہ اور تنبیہہ کی ہے۔ اسی لیے ’’المصابیح‘‘ کے قاری پر لازم ہے کہ وہ امام بغوی رحمہ اللہ کی اس مخصوص اصطلاح سے واقف ہو (کہ) جب وہ کسی حدیث کو ’’صحیح‘‘ یا ’’حسن‘‘ کہتے ہیں (تو اس سے ان کی مراد عام اصطلاح کے مطابق حدیث کا صحیح یا حسن ہونا مراد نہیں ہوتا بلکہ ان الفاظ سے ان کی اپنی ایک مجوزہ تقسیم کی طرف اشارہ ہوتا ہے)۔ ۸۔ احادیث ’’حسن‘‘ کے مواقع[3] کا بیان(کہ یہ احادیث کن کتب میں مل جاتی ہیں ): علماء محدثین نے خاص ایسی کتب تالیف نہیں کیں جو ’’احادیثِ حسن‘‘ کو جامع ہوں جیسا کہ انہوں نے خاص ’’احادیثِ صحیحہ‘‘ کو جامع مستقل اور الگ کتب تالیف کی ہیں ۔ البتہ کچھ ایسی کتابیں ضرور ہیں جن میں ’’احادیث حسن‘‘ بکثرت پائی جاتی ہیں ۔ ان میں سے چند مشہور کتب کا تعارف ذیل میں درج کیا جاتا ہے: الف:… جامع الترمذی: اس کا مشہور نام ’’سُنَنُ الترمذی‘‘ ہے۔ ’’حدیث حسن‘‘ کی معرفت میں ’’جامع ترمذی‘‘ اصل کا درجہ رکھتی۔ اور یہ امام ترمذی ہی ہیں جنہوں نے اپنی کتاب میں لفظِ حسن کو بکثرت استعمال بھی کیا ہے اور اس لفظ کو مشہور بھی کیا ہے۔ البتہ یہاں ایک بات کی طرف خاص توجہ دینا بہت ضروری ہے، وہ یہ کہ ’’امام ترمذی کی
Flag Counter