۶۔ صحیحین کی تعلیقات کا حکم:
یہ حکم کہ ’’حدیث معلّق مردود ہوتی ہے‘‘ مطلق حدیث معلّق کے لیے ہے۔ لیکن اگر ’’حدیث معلّق‘‘ کسی ایسی کتاب میں پائی جائے جس میں حدیث کی صحت کا التزام کیا گیا ہو جیسے ’’صحیحین‘‘، تو ایسی معلّق حدیث کا حکم ’’خاص‘‘ ہے اور اس کا حکم گزشتہ میں ’’صحیح حدیث‘‘ کی بحث میں گزر چکا ہے۔ [1]
البتہ اس مقام پر اُس بحث کی دو باتوں کو یاد دلانے میں کوئی حرج نہیں ، جو یہ ہیں :
۱: وہ معلّق احادیث جن کو جزم اور یقین کے صیغہ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے: جیسے ’’قَالَ‘‘ اور ’’ذَکَرَ‘‘ اور ’’حَکَی‘‘ (وغیرہ کے الفاظ کے ساتھ ذکر کی جانے والی تعلیقات) کہ ان کا حکم ان اشخاص کے اعتبار سے صحت کا ہے جن کی طرف یہ منسوب ہیں ۔
۲: وہ معلّق احادیث جن کو ’’تمریض‘‘[2]کے صیغہ کے ساتھ ذکر گیا ہے: جیسے ’’قِیْل‘‘ ، ’’ذُکِرَ‘‘ اور ’’حُکِیَ‘‘ (وغیرہ کے الفاظ کے ساتھ ذکر کی جانے والی تعلیقات) کہ ان کا حکم ان اشخاص کے اعتبار سے صحت کا نہیں جن کی طرف یہ منسوب ہیں بلکہ ایسی معلّق احادیث میں صحیح، حسن اور ضعیف ہر قسم کا احادیث ہیں البتہ صحیحین کی ایسی تعلیقات میں کوئی ’’واھی‘‘ حدیث نہیں ہے، کیوں کہ یہ سب تعلیقات ’’صحیح‘‘ نامی حدیث کی کتاب میں ہیں ۔[3]اور ’’معلّق احادیث‘‘ میں سے صحیح کو غیر صحیح سے پہچاننے اور اس پر اس کے مناسب حکم لگانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے اس حدیث کی اسناد کے بارے میں تحقیق و جستجو کرنا[4] (کہ اس حدیث کی اسناد کی جستجو کرکے پھر اس پر حسبِ حال حکم لگایا جائے گا)۔
|