’’دیباچہ‘‘یعنی رخسار سے مشتق ہے کہ جیسے چہرے کے دو رخسار ہوتے ہیں ایسے ہی اس حدیث کو بھی دونوں قرین ایک دوسرے سے روایت کرتے ہیں ) اب گویا کہ اس حدیث کا مُدَبَّج نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس میں راوی اور مروی عنہ دونوں (ایک دوسرے سے روایت کرنے میں ) مساوی ہوتے ہیں جیسے (چہرے کے) دونوں رخسار مساوی اور برابر ہوتے ہیں ۔
ب: …اصطلاحی تعریف: (محدثین کی اصطلاح میں حدیث مُدَبَّج) یہ دو قرین میں سے ہر ایک کا دوسرے سے حدیث کو روایت کرنا ہے۔[1]
۴۔ حدیث مُدَبَّج کی مثالیں :
(محدثین نے اس کی تین اقسام بیان کی ہیں جو طبقات کے اعتبار سے ہیں اس لیے اس کی مثالیں بھی تین قسم کی ہوں گی، جو یہ ہیں ):
الف: …(پہلی قسم) حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں حدیث مُدَبَّج: مثال: حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنا۔
ب: …(دوسری قسم) حضرات تابعین میں حدیث مُدَبَّج: مثال: امام زہری رحمہ اللہ کی حضرت عمر بن عبدالعزیز سے، اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی امام زہری رحمہ اللہ سے روایت۔
ج: …(تیسری قسم) حضرات تبع تابعین میں حدیث مُدَبَّج:مثال: امام مالک رحمہ اللہ کا امام او زاعی رحمہ اللہ سے اور امام اوزاعی رحمہ اللہ کا امام مالک رحمہ اللہ سے حدیث روایت کرنا۔
۵۔ حدیث مُدَبَّج کے فوائد:
(محدثین حضرات نے اس کے متعدد فوائد بیان کیے ہیں ، جن میں سے چند درج ذیل ہیں ) :
الف: …اسناد میں زیادتی اور اضافہ کا وہم نہ کیا جائے۔[2]
ب: …اور یہ وہم نہ کیا جائے کہ یہاں ’’عن‘‘ کو ’’واو‘‘ سے بدل دیا گیا ہے۔[3] (یعنی واو کی جگہ اسناد میں عن لکھ دیا ہے)۔
|