الف: …پہلی قسم یہ ہے کہ راوی مروی عنہ سے صرف عمر میں بڑا اور طبقہ میں مقدم ہو[1] (مگر حفظ اور علم میں دونوں مساوی ہوں ) ۔
ب: …دوسری قسم یہ ہے کہ راوی مروی عنہ سے صرف مرتبہ میں بڑا ہو ناکہ عمر میں بھی۔ جیسے ایک حافظ (حدیث) اور عالم راوی کسی غیر حافظ مگر بڑی عمر کے شیخ سے روایت کرے۔ مثلاً امام مالک رحمہ اللہ کا عبداللہ بن دینار سے روایت کرنا۔[2]
ج: …اور تیسری (صورت اور) قسم یہ ہے کہ راوی عمر اور مرتبہ دونوں میں مروی عنہ سے بڑا ہو کہ وہ مروی عنہ سے عمر میں بھی بڑا ہو اور اس سے زیادہ علم والا بھی ہو (جیسے) مثلاً برقانی کی خطیب سے روایت۔[3]
۴۔ روایۃ الاکابر عن الاصاغر کی چند مزید مثالیں :
الف: …صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تابعین سے روایت کرنا: جیسے حضراتِ عبادلہ رضی اللہ عنہ (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرتِ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ) وغیرہم کا (تابعین سے جیسے) کعب احبار سے روایت کرنا۔[4]
ب: …تابعین کا تبع تابعین سے روایت کرنا:…جیسے یحییٰ بن سعید انصاری رحمہ اللہ (تابعی) کا امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کرنا (کہ امام مالک رحمہ اللہ تبع تابعی تھے)۔
۵۔ روایۃ الاکابر عن الاصاغر کے فوائد:
(حضرات محدثین نے اس کے متعد دفوائد گنوائے ہیں جن میں سے چند ایک کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے)
الف:… اس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ (ہمیشہ) مروی عنہ (یعنی استاد اور شیخ) راوی (یعنی شاگرد) سے افضل اور عمر میں بڑا ہی ہوگا[5] کیوں کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔
ب:… دوسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ نہ گمان کر لیا جائے کہ اس سند میں ’’قلب‘‘ ہے کہ عام طور پر اصاغر ہی اکابر سے
|