Maktaba Wahhabi

129 - 292
کے) اس (اجماع) کی دلیل مسلم شریف کی یہ روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جس نے میری طرف سے ایک ایسی حدیث بیان کی جس کے جھوٹ ہونے کو وہ جانتا ہے تو وہ (بھی) دو جھوٹوں [1]میں سے ایک جھوٹا ہے‘‘[2] ۴۔ حدیث گھڑنے میں ان جعل سازوں [3]نے کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کیے؟ ان ’’جعل سازوں نے حدیث گھڑنے کے لیے دو ہتھکنڈے استعمال کیے: الف:… یا تو ان ’’جعل سازوں ‘‘ نے خود سے ایک حدیث تراش لی، پھر (دوسرا ستم یہ ڈھایا کہ) اس کے لیے ایک اِسناد بھی تیارکرلی اور اسی جعلی سند سے اس جعلی حدیث کو روایت کرنے لگے۔ (یہ خود موضوع حدیث کی بدترین صورت ہے)۔ ب:… یا ان لوگوں نے بعض (علماء صلحاء اور) حکماء کا کوئی قول لے لیا (یا کوئی اسرائیلی روایت لے لی۔ از علوم الحدیث ص۱۵۵) اور (اسے بطور حدیث پیش کرنے کے لیے) اس کے لیے ایک اِسناد گھڑلی۔(شر کے اعتبار سے حدیث موضوع کی اس قسم کا رتبہ کم ہے) ۔ [4] ۵۔ حدیث موضوع کیوں کر پہچانی جاتی ہے؟ (حدیث موضوع کے پہچاننے کے بنیادی طور پر دو ذرائع ہیں ، ایک یہ کہ اس کی اِسناد کا تحقیقی جائزہ لیا جائے دوسرا یہ کہ اس کے متن میں محدّثانہ، عالمانہ، فقیہانہ اور مجتہدانہ نگاہ ڈالی جائے اور اس کے مضمون میں غوروخوض کرکے اس کی رطوبت یا یبوست کا اندازہ لگایا جائے بہرحال) قطع نظر اِسناد کے، حدیثِ موضوع کو درجِ ذیل چند امور سے پہچانا جاسکتا ہے: الف:… ’’جعل ساز‘‘ اپنی جعل سازی کا خود اقرار کرے: جیسے ابو عصمہ نوح بن ابی مریم نے اقبال جرم کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ اس نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا نام لگا کر قرآن کریم کی ایک ایک سورت کے (عجیب
Flag Counter