ابن صلاح لکھتے ہیں : ’’فقہ اور اصولِ فقہ میں یہی ظاہر اور مقرر (پختہ) ہے۔ اور حافظ خطیب رحمہ اللہ نے بتلایا ہے کہ یہ امام بخاری اور امام مسلم وغیرہ جیسے ائمہ دین، حفاظِ حدیث اور ناقدین کا مذہب ہے یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عکرمہ اور عمرو بن مرزوق جیسے رواۃِ حدیث سے بھی استدلال و احتجاج کیا ہے جن کی دوسروں نے جرح بیان کی ہے، اور امام مسلم رحمہ اللہ نے سوید بن سعید اور ایک جماعتِ رواۃ سے احتجاج کیا ہے جو مطعون ہونے میں مشہور ہیں ۔ اور امام ابو داؤد نے بھی یہی طریق اختیار کیا ہے۔ ان اکابر ائمہ محدثین کا یہ رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان حضرات کا یہ مذہب تھا کہ جرح وہی معتبر ہوگی جو مفسَّر ہوگی (ناکہ غیر مفسَّر اور مبھم) ۔[1]
۷۔ کیا جرح و تعدیل صرف ایک شخص کے قول سے ثابت ہو جاتی ہے؟
(اس بابت دو قول ہیں ): الف: …صحیح قول یہ ہے کہ صرف ایک آدمی کے قول سے بھی جرح یا تعدیل ثابت ہو جاتی ہے۔[2] ب: …اور ایک قول یہ ہے کہ دو آدمیوں کا ہونا ضروری ہے مگر یہ قول غیرمعتمد ہے۔
۸۔ جب ایک راوی میں جرح و تعدیل دونوں جمع ہو جائیں تو کیا کیجیے؟:
جب ایک راوی میں جرح و تعدیل دونوں اکٹھے ہو جائیں تو اب:
الف: …اس بابت معتمد اور معتبر قول یہ ہے کہ اگر جرح مفسّر ہو تو وہ تعدیل پر مقدم ہوگی۔[3]
ب: …جب کہ ایک قول یہ ہے کہ اگر معدِّلین کی تعداد جرح بیان کرنے والوں سے زیادہ ہو تو تعدیل کو مقدم کیا جائے گا مگر یہ قول کمزور اور غیر معتمد ہے۔
۹۔ کسی عادل کا ایک شخص سے روایت کرنے کا حکم:
(اس بابت تفصیل ہے جو درجِ ذیل ہے)
الف: …کسی عادل راوی کا محض کسی سے روایت کر دینا اس کی تعدیل شمار نہ ہوگی۔ یہ اکثر محدثین کا مذہب ہے۔ اور یہی صحیح ہے۔ البتہ ایک قول اس کے تعدیل ہونے کا بھی ہے۔ [4]
|