Maktaba Wahhabi

204 - 292
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اس علم (یعنی دین) کو ہر پہلوں سے ان کے ’’عادل‘‘ لے لیں گے جو اس علم سے غلو کرنے والوں کی تحریف کو ، اہلِ باطل کی خیانتوں کو، اور جاہلوں کی (باطل) تاویلوں کو دور کریں گے۔‘‘ لیکن حضرات علماء و محدثین نے حافظ رحمہ اللہ کا یہ قول پسند نہیں کیا۔ کیوں کہ ایک تو یہ حدیث خود صحیح نہیں ہے (جیسا کہ حاشیہ میں بیان ہوا) دوسرے اگر اس حدیث کو صحیح فرض بھی کر لیا جائے پھر بھی اس حدیث کا معنی ’’لِیَحْمِلْ [1] ہذا العلم من کل خَلَفٍ عدولہ‘‘ ہے ’’یعنی چاہیے کہ اس علم کو ہر اگلوں سے ان کے بعد والے عادل لے لیں ‘‘ (ناکہ یہ مطلب ہے کہ جب بھی بعد والے اپنے پہلوں سے علم لیں گے تو وہ ضرور ہی عادل ہوں گے، کیوں کہ مشاہدہ اور تاریخ اس کی تائید نہیں کرتے اور) اس کی دلیل یہ ہے کہ ایسے لوگ بھی (تاریخ میں ) ملتے ہیں جنہوں نے اس علم کا بارِ گراں اپنے کندھوں پر رکھا مگر افسوس کہ وہ صفتِ عدالت سے آراستہ نہ تھے۔‘‘ ۵۔ راوی کا ضبط کیوں کر پہچانا جاتا ہے؟: راوی کا ضبط اس وقت پہچانا جاتا ہے جب ثقہ اور مُتْقِن رواۃ روایتِ حدیث میں اس کی موافقت کریں ۔ پس اگر تو ان حضرات کی موافقت اکثر ہو تو یہ راوی ضابط کہلائے گا، اب اس کی اکا دُکا مخالفت اس کے ضبط کے لیے مضّر نہ ہوگی۔ لیکن اگر اس سے ثقات کی مخالفت اکثر سرزد ہو تو اس کا ضبط مجروح ہو جائے گا اور ایسا راوی (اور اس کی روایت) ناقابلِ استدلال قرار پائے گی۔ ۶۔ کیا سبب کے بیان کے بغیر جرح و تعدیل مقبول ہوتی ہے؟[2] الف: …تعدیل کی بابت صحیح اور مشہور قول یہ ہے کہ بیانِ سبب کے بغیر بھی وہ مقبول ہوتی ہے کیوں کہ تعدیل کے جملہ اسباب کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ان سب کا (استقصاء اور) شمار نہایت دشوار ہے کیوں کہ ’’تعدیل‘‘ میں ’’مُعَدِّل ‘‘ (تعدیل بیان کرنے والے) کو یوں کہنے کی احتیاج ہوتی ہے مثلاً، ’’یہ راوی ان ان نیک کاموں کو کرتا ہے…… ‘‘ وغیرہ وغیرہ (اور ان باتوں کو کہاں تک شمار کیجیے؟) ب: …البتہ جرح تب ہی مقبول ہوگی جب وہ ’’مفسَّر‘‘ ہوکیوں کہ اسباب جرح کا ذکر کوئی اس قدر دشوار کام نہیں (کہ شمار مشکل ہو) [3] دوسرے (جرح کا مفسّر ہونا) اس لیے بھی (ضروری ہے) کہ اسبابِ جرح میں لوگوں کا اختلاف ہے کہ کبھی ایک شخص دوسرے کی ایسی جرح بیان کر دیتا ہے جو دراصل جرح ہوتی ہی نہیں ۔ [4]
Flag Counter