۴۔ ’’اَلْمُنَاوَلَۃُ‘‘[1] (یہ تحمل حدیث کا چوتھا طریق ہے)
الف: مناولہ کی اقسام:
مناولہ کی (بنیادی طور پر) دو قسمیں ہیں :
۱۔ مناولہ مقرونہ بالاجازت:
(اس کو ’’مُنَاوَلَۃٌ مَعَ الْاِجَازَۃِ‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ یعنی شیخ کوئی کتاب اور تحریر بھی دے اور ساتھ ہی صراحۃً روایت کی اجازت بھی دے) اور یہ اجازت کی انواع میں سے مطلقاً سب سے اعلیٰ نوع ہے اور اس کی ایک صورت یہ ہے کہ شیخ طالب کو اپنی کتاب دے کر یہ کہے، ’’یہ فلاں کے واسطے سے میری روایات ہیں پس تم ان کو میرے واسطے سے روایت کرو پھر چاہے تو وہ کتاب اس کی ملکیت میں دے کر اسی کے پاس رہنے دے یا (چند دنوں کے واسطے) اعارۃً دے دے تاکہ وہ اس کو لکھ لے۔
۲۔ مُنَاوَلَۃٌ مُجَرَّدَۃٌ عَنِ الْاِجَازَۃِ:
(اسے مناولہ بدون اجازت کہتے ہیں ) اور اس کی صورت یہ ہے کہ شیخ طالب علم کو فقط یہ کہہ کر اپنی کتاب دے دے کہ ’’یہ میری روایات ہیں ‘‘ (مگر اس کے ساتھ اس بات کی صراحت نہ کرے کہ تمہیں آگے میرے واسطے سے ان کو روایت کرنے کی بھی اجازت ہے یا نہیں ) ۔
ب: مناولہ کے طریق سے حاصل کی گئی احادیث کو روایت کرنے کا حکم:
(چوں کہ مناولہ کی دو اقسام ہیں اس لیے ہر ایک کا حکم بھی جدا جدا ہے، جو یہ ہے)
۱۔ مُنَاوَلَۃٌ مَقْرُوْنَۃٌ بِالْاِجَازَۃِ کا حکم:
ایسی احادیث کی روایت جائز ہے اور اس کا مرتبہ ’’سَمَاعٌ مِنْ لَفْظِ الشَّیْخِ‘‘ اور ’’قِرَائَ ۃٌ عَلَی الشَّیْخِ‘‘ سے کم ہے۔
۲۔ مُنَاوَلَۃٌ مُجَرَّدَۃٌ عَنِ الْاِجَازَۃِ کا حکم:
صحیح قول یہ ہے کہ ایسی روایات کو آگے بیان کرنا درست نہیں ۔
|