Maktaba Wahhabi

203 - 292
ب:… ضبط: اور ضبط سے محدثین کی مراد یہ ہے کہ راوی میں مخالفتِ ثقات، خراب حافظہ، زبانی اغلاط کی کثرت، غفلت اور کثرتِ اوہام میں سے کوئی بات بھی نہ پائی جاتی ہو۔[1] ۳۔ راوی کی عدالت کیوں کر ثابت ہوتی ہے؟ راوی کی عدالت دو باتوں میں سے کسی ایک کے ذریعے ثابت ہوتی ہے: الف: …یا تو علماء تعدیل اس کی عدالت کی تصریح بیان کریں ، چاہے سب بیان کریں یا ایک بیان کرے۔ ب: یا( علماء ، محدثین اور فقہاء کے درمیان اس کی عدالت کا) شہرہ اور چرچا ہو۔ چناں چہ جس شخص کی عدالت علماء میں مشہور ہو اور ہر ایک کی زبان پر اس کی مدح اور تعریف ہو، اس (کی عدالت) کے لیے یہی بات کافی ہو جاتی ہے کہ اس کے بعد اس کی عدالت کو صراحتہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں رہتی ۔جیسے (امتِ مسلمہ کے) مشہور (اور معتمد) حضرات ائمہ کرام جیسے ائمہ اربعہ[2] ، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ (جنہیں ’’سفیانین‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے) اور اوزاعی وغیرہ [3] ۴۔ ثبوتِ عدالت میں حافظ ابن عبدالبر کا مذہب: حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی اس باب میں رائے یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو زیورِ علم سے آراستہ ہو اور علم ہی میں شب و روز غرق رہتا ہو اور لوگوں میں اس کا یہی تعارف ہو، تو اس کے ان احوال کو عدالت پر محمول کیا جائے گا جب تک اس کی جرح کا کوئی امر کھل کر سامنے نہ آجائے۔‘‘ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اپنی یہ رائے قائم کرنے میں دراصل اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے استدلال کیا ہے: ’’یَحْمِلُ ہٰذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلَفِ عُدُوْلُہُ یَنْفُوْن عَنْہُ تَحْرِیْفَ الْغَالِّیْنَ ، وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِیْنَ وَتَأْوِیْلَ الْجَاھِلِیْنَ۔‘‘[4]
Flag Counter