کرے۔‘‘[1]
یہ ہے وہ تعریف جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بیان کی ہے اور اس پر اعتماد کیا ہے (اور اس تعریف کو پسند کیا ہے) کیوں کہ اس تعریف میں ایک قید پہلی تعریف سے زیادہ ہے اور وہ ہے ’’ضعیف راوی کا ثقہ راویوں کی روایت کی مخالفت کرنا۔‘‘
۲۔ حدیث منکر اور شاذ کے درمیان فرق:
(محدثین نے ان دونوں قسموں میں درجِ ذیل فرق بتلایا ہے)
الف:… شاذ وہ حدیث ہے جس کو مقبول راوی[2]اس حدیث کے خلاف روایت کرے جو درجہ میں اس سے اعلیٰ ہو۔
ب:… جب کہ منکر وہ حدیث ہے جس کو ضعیف راوی اس حدیث کے خلاف روایت کرے جس کے راوی ثقہ ہوں ۔
بیان کردہ مذکورہ فرق سے یہ معلوم ہوا کہ حدیث کی یہ دونوں اقسام مخالفتِ ثقات کی شرط میں تو باہم مشترک ہیں البتہ اس امر میں دونوں قسمیں الگ الگ ہو جاتی ہیں کہ ’’شاذ‘‘ کا راوی مقبول ہوتا ہے جب کہ ’’منکر‘‘ کا راوی ضعیف ہوتا ہے۔ اسی لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ، ’’جو شخص ان دونوں قسموں کو ایک کہتا ہے اس نے غفلت کا ثبوت دیا ہے۔‘‘ [3]
۳۔ پہلی تعریف کے مطابق حدیث مُنکَر کی مثال:
اس کی مثال وہ حدیث جو نسائی اور ابن ماجہ نے ابو زکیر یحییٰ بن محمد بن قیس سے روایت کی ہے جو یہ ہے:
’’عن ھشام بن عروۃ، عن ابیہ، عن عائشۃ مرفوعاً: ’’کُلُوْ الْبَلَحَ بِالتَّمْرِ فَاِنَّ ابْنَ اٰدَمَ اذَا اَکَلَہُ غَضِبَ الشَّیْطَانُ‘‘[4]
’’ابو زکیر ہشام بن عروہ سے، وہ اپنے والد (عروہ) سے اور وہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، ’’کچی کھجوروں کو پکی کھجوروں کے ساتھ (ملاکر) کھایا کرو کہ
|