اور اسی میں سے یہ (صورتیں ) بھی ہیں کہ رواۃ کے نام اور کنیتیں بھی ایک ہوں یا ان کے نام اور ان کی نسبتیں بھی ایک ہوں وغیرہ وغیرہ۔[1]
(اب رواۃ کے ناموں اور ان کے آباء کے ناموں میں اشتراک کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں جن کو ذیل کی مثالوں میں بیان کیا جاتا ہے):
۲۔ متفق و مفترق کی مثالیں :
الف:… (صرف راوی اور اس کے والد کے نام میں اتفاق ہو، جب کہ دونوں راوی الگ الگ اشخاص ہوں ، جیسے) ’’خلیل بن احمد‘‘ کہ یہ چھ اشخاص ہیں جن سب کا یہ مشترکہ نام ہے، اور ان چھ میں سب سے پہلے (مشہور نحوی امام) سیبویہ کے شیخ ہیں (کہ ان کا نام خلیل بن احمد ہے)۔
ب: …(راوی، اس کے باپ اور دادا کا نام ایک ہو، جیسے) ’’احمد بن جعفر بن حمدان‘‘ کہ اس نام کے چار اشخاص تھے اور (لطف کی بات یہ ہے کہ یہ چاروں ) ایک زمانہ میں تھے۔
ج: …’’عمر بن خطاب‘‘[2]کہ اس نام کے چھ اشخاص ہیں ۔[3]
۳۔ اس فن کی اہمیت اور فائدہ:
علوم الحدیث کی اس نوع کی معرفت حاصل کرنا بے حد اہمیت اور ضرورت کی مالک ہے۔ کیوں کہ متعدد اکابر علماء بھی اس نوع سے نابلد ہونے کی وجہ سے ٹھوکر کھا گئے( اور اس میدان یعنی معرفتِ رواۃ میں ان کے قدم ڈگمگا گئے، اسی لیے حضرات محدثین نے اس کی اہمیت پر بے حد زور بھی دیا ہے) اور اس کے متعدد فوائد (بھی بیان کیے) ہیں (جن میں سے چند ایک کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے):
الف: …ایک نام میں مشترک چند افراد کو ایک شخص نہ باور کرلیا جائے حالاں کہ وہ افراد کی ایک جماعت ہوتے
|