ب: …کسی عالم کا کسی حدیث کے مضمون کے موافق فتویٰ دے دینا یا اس پر عامل ہو جانا اس حدیث کی صحت کی دلیل نہیں ۔ اور کسی عالم کی مخالفت (اور اس حدیث کے خلاف فتویٰ دے دینا) نہ تو اس حدیث کی صحت میں قدح اور ضرر ہے۔ اور نہ اس حدیث کے رواۃ کے حق میں جرح ہی ہے۔[1]
اور ایک قول یہ ہے کہ کسی عالم کا عمل یا فتویٰ اس حدیث کے لیے ’’صحت‘‘ کا حکم رکھتا ہے علامہ آمدی رحمہ اللہ [2] وغیرہ علماء اصول نے اس قول کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ مگر اس مسئلہ میں طویل کلام ہے (جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں )۔
۱۰۔ فسق و فجور سے تائب کی روایت کا حکم:
(کبائر کے مرتکب ہونے کے بعد ان سے تائب ہونے والے کی روایت کے بارے میں دو قول ہیں ) :
۱۔ ایسے تائب کی روایت مقبول ہے (کیوں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے توبہ کرنے والے کا یہ اکرام فرمایا کہ گویا کہ اس سے گناہ سرزد ہی نہیں ہوا) ۔
۲۔ البتہ جس کے سر جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن صدق و صداقت پر کذب کی تہمت کا داغ لگانے کی سعی نامشکور کا الزام ہو، اس کی سزا یہی ہے کہ تائب ہونے کے بعد بھی اس کی روایت ہرگز قبول نہ کی جائے (تاکہ اس کا یہ انجام بد دیکھ دوسروں کو عبرت و نصیحت ہو اور اس ناپاک حرکت کی کوئی دوسرا جرات نہ کرے)۔
۱۱۔اُجرت لے کر احادیث بیان کرنے والے کا حکم:
(اس بابت متعدد اقوال ہیں مثلاً)
الف: …بعض کے نزدیک ایسے شخص کی روایت غیر مقبول ہے۔ جیسے امام احمد، اسحاق اور ابو حاتم کا یہی مذہب ہے۔
ب: …ابو نعیم فضل بن دکین وغیرہ دوسرے بعض حضرات کے نزدیک اس کی روایت مقبول ہے۔
ج: …البتہ اگر کسی شخص سے روایتِ حدیث میں مشغول ہونے کی بنا پر بیوی بچوں کی کفالت اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے اسباب نہ بن پڑیں تو ایسے شخص کے لیے ابو اسحاق شیرازی نے اجرت لینے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔[3]
|