ہے جسے وہ ربعی سے اور وہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((وَجُعِلَتْ لَنَا الْاَرْضُ کُلُّھَا مَسْجِدًا وَجُعِلَتْ تُرْبَتُھَا لَنَا طَھُوْرًا۔))
’’اور ہمارے لیے ساری (دنیا) کی ساری زمین کو مسجد (یعنی نماز ادا کرنے کے لائق جگہ) بنادیا گیا اور اس کی مٹی کو ہمارے لیے پاک کرنے والا بنا دیا گیا۔‘‘
کہ اس حدیث میں ابو مالک اشجعی ’’تربتھا‘‘ کے الفاظ روایت کرنے میں متفرد ہیں کہ دوسرے (ثقہ) رواۃ نے یہ الفاظ روایت نہیں کیے۔ انہوں نے یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے:
(( وَجُعِلَتْ لَنَا الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَّ طَھُورًا۔)) [1]
(زیادہ فی المتن کی تعریف، اقسام، امثلہ اور احکام کا بیان پورا ہوا اب زیادۃ فی الاسناد کی تفاصیل ملاحظہ کیجیے!)
۶۔ ’’زیادۃ فی الاسناد‘‘ کا حکم:
(زیادۃ فی الاسناد کی تعریف اور صورت بیان ہو چکی ہے) (زیادتیٔ ثقات کے ضمن میں ) ’’زیادۃ فی الاسناد‘‘ دو بنیادی مسئلوں میں اکثر واقع ہوتی ہے، جو یہ ہیں :
وصل کا ارسال کے ساتھ تعارض
اور رفع کا وقف کے ساتھ تعارض
جب کہ زیادۃ فی الاسناد کی باقی صورتوں کو علماء نے ان کی الگ خاص ابحاث میں بیان کیا ہے جیسے ’’المزید فی متّصل الاسانید‘‘ (کی بحث)
’’زیادۃ فی الاسناد‘‘ کے رد و قبول کے بارے میں علماء کے چار اقوال ہیں ، جو یہ ہیں :
الف: …حکم اس شخص کے لیے ہوگا جو حدیث کو موصول یا مرفوع روایت کرے (یعنی یہ زیادتی مقبول ہوگی) اور یہی جمہور فقہاء اور علمائے اصول کا قول ہے۔[2]
ب: …حکم اس راوی کے لیے ہوگا جو اس کو مرسل یا موقوف روایت کرے (یعنی یہ زیادتی رد ہوگی) یہ اکثر اصحابِ حدیث کا قول ہے۔
|