اور منکر کی ان دونوں صورتوں میں بے حد ضعف ہے، اِس لیے جیسا کہ ’’متروک‘‘ کی بحث میں گزر چکا ہے ’’حدیث منکر کا مرتبہ شدتِ ضعف میں ‘‘ متروک حدیث کے بعد کا ہے۔
۴ … حدیث معروف [1]
۱۔ معروف کی تعریف:
الف:… لغوی تعریف: لفظ معروف ’’عَرَفَ‘‘ فعل سے اسم مفعول کا صیغہ ہے (جس کا معنٰی ہے پہچانا ہوا اور شناخت کیا ہوا) ۔
ب:… اصطلاحی تعریف: ’’(اصطلاحِ محدثین میں ) یہ وہ حدیث ہے جس کو ایک ثقہ راوی اس حدیث کے خلاف روایت کرے جس کو ایک ضعیف راوی نے روایت کیا ہو۔‘‘ [2]
اس معنی کے اعتبار سے ’’حدیث معروف‘‘ منکر کے مقابل ہے یا اس کی مزید دقیق تعبیر ان لفظوں کے ساتھ کی جاسکتی ہے کہ ’’حدیث معروف‘‘ منکر کی اس تعریف کے بالمقابل ہے جس پر حافظِ ابن حجر رحمہ اللہ نے اعتماد کیا ہے( اور اس کو پسند کیا ہے)۔ [3]
۲۔ معروف کی مثال:
اس کی مثال وہ حدیث ہے جو گزشتہ میں حدیث منکر کی دوسری تعریف کے ضمن میں (مثال نمبر ۲ کے تحت) گزر چکی ہے۔ جو یہ ہے:
’’مَنْ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکوٰۃَ وَحَجَّ الْبَیْتَ وَصَامَ وَقَرَی الضَّیْفَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔‘‘
’’جس نے نماز قائم کی، زکوٰۃ ادا کی، بیت اللہ کا حج کیا، (رمضان کے) روزے رکھے اور مہمانوں کی مہمان نوازی کی وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘
لیکن اس مقام پر وہ حدیث لی گئی ہے جو ثقات کے طریق سے ہے جس کو انہوں نے حضرتِ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے موقوفاً روایت کیا ہے۔ یعنی یہاں یہ حضرتِ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا کلام ہے ناکہ جنابِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہے اور مذکورہ روایت میں حبیب کی روایت کردہ مرفوع روایت کے بالعکس ہے۔ کیوں کہ ابن ابی حاتم حبیب کی مرفوع روایت ذکر
|