ب:… شہرت: [1] جیسے حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عکاشہ بن مِحصن رضی اللہ عنہ کا صحابی ہونا (امت میں حدِ شہرت کو پہنچا ہوا ہے)۔
ج:… کسی دوسرے صحابی کا( ان کے صحابی ہونے کے بارے میں ) خبر دینا:
د:… کسی ثقہ تابعی کا (کسی کے صحابی ہونے کی) خبر دینا:
ھ:… کسی کا خود اپنے صحابی ہونے کی خبر دینا: (مگر یہ اس وقت ہے) جب خبر دینے والا ثقہ (بھی) ہو اور اس کا یہ دعویٰ (عادۃً) ممکن بھی ہو۔[2]
۴۔ سب کے سب صحابہ عادل ہیں :
معتمد اور معتبر علماء امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ سب کے سب صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم عادل ہیں چاہے ان کو فتنوں سے واسطہ پڑا ہو (یعنی دورِ فتن و فساد تک زندہ رہے ہوں ) یا واسطہ نہ پڑا ہو (اور اس سے پہلے ہی خالقِ حقیقی سے جاملے ہوں ۔ خواہ انہوں نے بارگاہِ رسالت میں چند گھڑیاں گزاری ہوں یا انہیں طویل صحبت نصیب ہوئی ہو بہرحال ایسے سب حضرات عادل ہیں ) اور ان کے عادل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے روایت کرنے میں قصداً جھوٹ بولنے اور ان میں سے کسی قسم کے انحراف کرنے میں ایسی ہر بات کے ارتکاب سے اجتناب اور گریز کیا جس سے ان کی روایات غیر مقبول ٹھہریں اور اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سب کی سب روایات مقبول ہیں اور (ان روایات کے مقبول ٹھہرانے کے لیے) ہمیں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت کی تحقیق کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔
رہ گئے وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہیں فتنوں سے واسطہ پڑا، تو ان میں سے ہر ایک صحابی کے معاملہ کو اس اجتہاد پر محمول کیا جائے گا جس میں مجتہد کو رب تعالیٰ اجر سے نوازتے ہیں ۔ اور ایسا حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ حسنِ ظن رکھنے کے لیے ہے کیوں کہ یہی حضرات حاملینِ شریعت اور ’’خیر القرون‘‘ والے ہیں ۔
۵۔ زیادہ احادیث بیان کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم :
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے چھ اصحاب ایسے ہیں جن کا شمار کثرت کے ساتھ احادیث بیان کرنے والوں (مکثرین) میں ہوتا ہے۔ ذیل میں (کثرتِ روایت کے اعتبار سے) علی الترتیب ان حضرات کے نام دیئے جاتے ہیں :
|