ب،ج:… اس کے رواۃ عادل اور ضابط ہیں : علماء جرح و تعدیل نے ان بزرگوں کے بارے میں کیا کہا ہے ذیل میں اس کا مختصر تعارف ملاحظہ ہو!
(۱) عبداللہ بن یوسف: ثقہ ہے، مُتقن ہے۔[1]
(۲) مالک بن انس: امام ہیں حافظ ہیں ۔[2]
(۳) ابن شہاب زھری: فقیہ[3]ہیں ، حافظ ہیں اور ان کی علمی جلالت اور حدیث میں مہارت (اِتْقَان) پر سب متفق ہیں ۔
(۴)محمد بن جبیر:ثقہ ہیں ۔
(۵) جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ : صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔
د: …اس لیے کہ یہ حدیث غیر شاذ ہے: کیوں کہ اس سے قوی کوئی حدیث اس کے معارض نہیں ۔
ھ: …اور اس لیے کہ اس حدیث میں کوئی علت نہیں پائی جاتی۔
۵۔ صحیح حدیث کا حکم:
تمام معتبر علماء اصول ، فقہاء اور محدثین کے نزدیک بالاجماع ’’صحیح‘‘ حدیث پر عمل کرنا واجب ہے اور ’’صحیح حدیث‘‘ دلائلِ شرعیہ میں سے ایک دلیل ہے اور کسی مسلمان کے لیے بھی اس پر عمل ترک کرنے کی گنجائش نہیں ۔
۶۔ محدثین کے اس قول ’’یہ حدیث صحیح ہے‘‘ یا’’یہ حدیث غیرصحیح ہے‘‘ کی مراد:
الف:… محدثین کے اس قول، ’’ یہ حدیث صحیح ہے‘‘ سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ گزشتہ مذکورہ پانچویں شروط اس حدیث میں پائی جاتی ہیں ، ناکہ یہ بات ہے کہ نفس امر میں اس حدیث کی صحت یقینی ہے، کیوں کہ بھول چوک کا امکان کسی ثقہ راوی سے بھی ہو سکتا ہے۔
ب: …اور محدثین کے اس قول، ’’یہ حدیث غیر صحیح ہے‘‘ سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس حدیث میں گزشتہ مذکورہ سب کی سب یا بعض شروط نہیں پائی گئیں ۔ ناکہ یہ بات ہے کہ یہ حدیث ’’نفسِ امر‘‘ میں جھوٹ اور غلط ہے، کیوں کہ درستی اور درست بات کا امکان اس شخص سے بھی ہوتا ہے جو بہت زیادہ خطا کر جاتا ہو۔ [4]
|