اُسے مٹا دے۔‘‘[1]
ب:… اباحت پر مشتمل حدیث:اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’(میری احادیث) ابو شاہ کو لکھ دو۔‘‘[2]
کتابت حدیث کے مباح ہونے کے متعلق اور احادیث بھی ہے جن میں ایک حدیث وہ ہے جس میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو احادیث لکھنے کی اجازت دینا منقول ہے۔ [3]
۳۔ احادیث اباحت و ممانعت کے درمیان تطبیق[4]اور جمع کی صورت:
علمائے کرام نے اباحت و ممانعت کی احادیث میں جمع و تطبیق بٹھلانے کی متعدد صورتیں بیان کی ہیں ، ہم ذیل میں ان میں سے دو صورتیں بیان کرتے ہیں :
الف:… کتابت کی اجازت اسے دی گئی جس کی بابت یہ اندیشہ تھا کہ وہ احادیث بھول جائے گا، اور ممانعت اس کے لیے ہے جس پر نسیان کا اندیشہ نہ ہو بلکہ اس کی بابت یہ خطرہ ہو کہ لکھ لینے کے بعد وہ تحریر پر ہی بھروسہ نہ کرنے لگے۔
ب:… نہی اس وقت (اور اس صورت) میں تھی جب احادیث کے قرآنِ کریم کی آیات میں مل جانے کا اندیشہ تھا (اور یہ نزول قرآن کا زمانہ تھا کہ ابھی آیاتِ قرآنیہ لکھی جا رہی تھیں ۔ اب اگر احادیث کے بھی لکھ لینے کی اجازت دے دی جاتی تو خطرہ تھا کہ کہیں لکھی احادیث اور لکھی آیات کسی پر مشتبہ نہ ہو جائیں اور انہیں باہم خلط ملط نہ دیں ) لیکن جب (یہ) اندیشہ جاتا رہا (وہ یوں کہ آیات قرآنیہ کو مستقل مقامات پر جن کی تفصیل ’’علوم القرآن‘‘ میں ’’جمع قرآن‘‘ کی بحث میں دیکھی جاسکتی ہے،[5] لکھ لیا گیا) تو کتابتِ حدیث کی اجازت دے دی گئی۔ اس تفصیل کی بنا پر نہی (پر مشتمل وارد احادیث) منسوخ ہوں گی۔
۴۔ کاتب حدیث کی کیا ذمہ داریاں ہیں ؟
حدیث لکھنے والے کو چاہیے کہ:
وہ احادیث کے حروف کی شکل اور اس کے نقطوں کو ضبط میں لانے اور ان کی اچھی طرح چھان بین کرنے میں اپنی
|