(یعنی مصدر کا یہ وزن) عربوں سے سنا نہیں گیا۔[1] اس کو ’’مصدرِ مُوَلَّد‘‘ کہتے ہیں (اور مُوَلَّد کہتے ہیں ہر نئی چیز کو یعنی وَجَدَ فعل سے مصدر کا یہ وزن عربی زبان میں نو[2] ایجاد کردہ ہے۔ واللہ اعلم)
الف:… وجادہ کی صورت:
(اور اس کی بیان کردہ صورت سے ہی اس کی اصطلاحی تعریف کو بھی اخذ کیا جاسکتا ہے جب کہ اس کا لغوی معنی اور اس وزن کی بابت تفصیل کو متن اور حاشیہ میں بیان کر دیا گیا ہے۔ بہرحال) وجادہ کی صورت یہ ہے کہ ایک طالب کسی شیخ کی روایت کردہ احادیث کے ایسے مجموعے کو پائے جو شیخ کے ہی خط سے تحریر کردہ ہو اور وہ طالب شیخ کے خط کو پہچانتا بھی ہو مگر نہ تو اس نے شیخ سے (ان احادیث کا) سماع کیا ہو اور نہ اسے (ان احادیث کے آگے روایت کرنے کی) اجازت ہو۔
ب: وجادہ کے طریق سے حاصل کردہ حدیث کی روایت کا حکم :
وجادہ کے طریق سے حدیث روایت کرنا ’’منقطع‘‘ (یعنی انقطاع) کے باب سے ہے (یعنی ایسی حدیث ’’منقطع‘‘ کی ایک نوع کہلائے گی اور اس کا بھی وہی حکم ہے جو منقطع حدیث کا ہے) البتہ اس میں ایک گونہ ’’اتصال‘‘ پایا جاتا ہے۔[3]
ج: الفاظِ ادا:
(احادیث کا ایسا مجموعہ )پانے والا (یعنی ’’واجد‘‘ اس مجموعہ کی احادیث کو روایت کرتے وقت) یہ کہے، ’’وَجَدْتُ بِخَطِّ فُلَانٍٍ‘‘ میں نے فلاں کی تحریر میں یہ حدیث پائی ہے‘‘ یا ’’قَرَاْتُ بِخَطِّ فُلَانٌ‘‘ ’’میں نے فلاں کی تحریر میں یہ حدیث پڑھی ہے‘‘ پھر یہ کہہ کر آگے حدیث کی سند اور متن کوبیان کرے۔
مشقی سوالات
مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کیجیے۔
۱۔ راوی کا مسلمان ہونا تحمل حدیث کے لیے ضروری نہیں بلکہ ادائے حدیث کے لیے ضروری ہے۔ وضاحت کیجیے۔
۲۔ اگر شیخ اپنی کتاب شاگرد کو دے لیکن حدیث بیان کرنے کی اجازت نہ دی ہو تو اس شخص کی حدیث کا کیا حکم ہے؟
۳۔ ’’مناولۃ مقرونۃ بالاجازۃ‘‘ کسے کہا جاتا ہے؟
۴۔ اگر کوئی شخص اپنے استاذ کا خط پہچان لے تو اس کتاب کی کیا حیثیت ہوگی؟
|