روایت کرتے ہیں (لیکن اکابر کا اصاغر سے روایت کرنا بھی خارج از امکان نہیں کہ سند میں اسے دیکھتے ہوئے اس کو ’’مقلوب‘‘ باور کر لیا جائے)۔
۶۔ مشہور تصانیف:
اس باب میں حافظ ابو یعقوب اسحاق بن ابراھیم ورّاق رحمہ اللہ متوفی ۴۰۳ھ کی کتاب ’’مارواہ الکبار عن الصغار والآباء عن الابناء‘‘ بہت مشہور ہے۔
۴… ’’روایت الآباء عن الابناء‘‘
یعنی باپوں کا بیٹوں سے روایت کرنا
۱۔ ’’روایۃ الآباء عن الابناء‘‘ کی تعریف:
یہ کسی حدیث کی سند میں اس بات کا پایا جانا ہے کہ باپ اپنے بیٹے سے روایت کر رہا ہو۔[1]
۲۔ ’’روایۃ الآباء عن الابناء‘‘ کی مثال:
(اس کی مثال) وہ حدیث ہے جو حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اپنے برخوردار ’’فضل‘‘ سے روایت کرتے ہیں کہ، ’’جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقامِ مزدلفہ پر ’’جمع بین الصلوتین‘‘ کیا۔[2]
۳۔ فوائد:
(حضرات محدثین نے اس کے متعدد فوائد بیان کیے ہیں ۔ جن میں سے ایک اہم فائدہ یہ ہے) کہ یہ گمان نہ کر لیا جائے کہ (مذکورہ حدیث کی) سند میں ’’قلب‘‘ یا خطا ہے کیوں کہ اصل (اور اغلب اور عام) تو یہ ہے کہ بیٹا باپ سے روایت کرے۔
غرض روایت کی یہ قسم اور گزشتہ مذکورہ قسم علماء کی (شانِ) تواضع پر دلالت کرتی ہیں کہ ان لوگوں نے ہر ایک سے(کسی عار اور خار کے بغیر) علم حاصل کیا خواہ وہ کوئی بھی تھا چاہے وہ عمر اور مقام و مرتبہ میں ان سے کم بھی تھا۔
۴۔ مشہور تصانیف:
اس موضوع پر خطیب بغدادی کی کتاب ’’روایۃ الآباء عن الابناء‘‘ زبانِ زد خاص و عام ہے۔
|