Maktaba Wahhabi

136 - 292
خلاف ہو۔ [1] ۲۔ دوسرا یہ کہ وہ راوی اپنی روزمرہ کی گفتگو میں تو جھوٹ بولنے کی بابت مشہور ہو مگر اس سے کسی حدیث میں جھوٹ بولنا ثابت نہ ہو۔[2] ۳۔ حدیث متروک کی مثال: اس کی مثال ’’عمرو بن شَمِر جُعفی کوفی‘‘ کی یہ حدیث ہے: ’’عن جابر ، عن ابی الطفیل عن عليّ وعمّار قالا، ’’ کَانَ النَّبِیُّ یَقْنُتُ فِی الْفَجْرِ وَیُکَبِّرُ یَوْمَ عَرَفَۃَ مِنْ صَلٰوۃِ الْغَدَاۃِ وَیَقْطَعُ صَلٰوۃُ الْعَصْرِ اٰخِرَ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ۔‘‘ ’’عمر و کوفی، جابر سے، وہ ابو طفیل سے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں : یہ دونوں صحابی فرماتے ہیں کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر میں قنوت پڑھا کرتے تھے اور عرفہ کے دن فجر کی نماز سے ہی تکبیر پڑھتے تھے اور ایام تشریق کے آخری دن عصر کی نماز میں تکبیر کہنا ختم کر دیتے تھے۔‘‘ (اس حدیث کی اسناد میں ) عمرو بن شَمِر کوفی (ہے، اس) کے بارے میں امام نسائی، دارِ قطنی اور دوسرے (معتمد اور محقق) محدثین یہ کہتے ہیں کہ (عمرو بن شمِر) ’’متروک الحدیث‘‘ ہے۔ [3] ۴۔ حدیثِ متروک کا مرتبہ: گزشتہ میں بیان کیا جاچکا ہے کہ ضعیف حدیث کی بدترین قسم ’’موضوع‘‘ ہے اور اس کے بعد متروک کا درجہ ہے، پھر مُنْکَر ہے، پھر مُعَلَّل، پھر مُدرَج، پھر مَقْلُوْب اور پھر مُضْطَرِب ہے۔ ان احادیث میں یہ درجہ بندی حافظِ ابن حجر رحمہ اللہ نے کی ہے۔ [4]
Flag Counter