(۱) اس خبر کو ان گنت اور بے شمار لوگوں نے روایت کیا ہو( جن کی تعداد حدِ شمار سے باہر ہو) البتہ ان کی کثرت کی کم از کم کتنی تعداد ہو؟ اس میں مختلف اقوال ہیں ۔ مگر مختار قول ان کے دس ہونے کا ہے۔[1] (۲) رواۃ حدیث کی یہ کثرت (شروع) سند (سے لے کر اخیر تک) کے تمام طبقات میں پائی جائے۔ (۳) ان سب کا جھوٹ پر جمع ہونا محال ہو۔ [2]
(۴) اور روایانِ حدیث کی خبر کا تعلق حسّ سے ہو(یعنی امور حسیّہ سے ہوکہ وہ کوئی دیکھی اور سنی جانے والی بات ہونا کہ عقلی و قیاسی ہو)۔
جیسے خبر کے رواۃ یہ کہیں ’’ہم نے سنا، یا ہم نے دیکھا، یا ہم نے چھو کر دیکھا وغیرہ وغیرہ‘‘ البتہ جب ان کی دی گئی خبر کا تعلق امورِ عقلیہ سے ہو۔ جیسے مثلاً وہ ’’حدوثِ عالم‘‘ کی خبر دیں ، تو اس وقت (ان کے اتفاق اور کثرتِ تعداد کو ’’تواتر‘‘ اور) ان کی خبر کو ’’متواتر‘‘ نہ کہیں گے۔
۴۔ تواتر کا حکم:
خبر متواتر ’’علمِ ضروری‘‘[3]یعنی (قطعی اور) یقینی علم کا فائدہ دیتی ہے کہ آدمی اس کی قطعی اور یقینی تصدیق پر یوں مجبور ہوتا ہے جیسے وہ شخص مجبور ہوتا ہے جو خود اس امر کو دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اسے (اپنے مشاہدہ کے وقت) اس امر کی تصدیق میں مطلق تردّد نہیں ہوتا، اسی طرح خبر متواتر ہے (کہ آدمی اس کی تصدیق پر مجبور ہوتا ہے اور اس بات کے قطعی اور یقینی ہونے میں اسے ذرا تردّد نہیں ہوتا) اسی لیے خبر متواتر ہر اعتبار سے مقبول ہی مقبول ہوتی ہے اور اس کے رواۃ کے
|