۱۳۔شیخین کی شرط (کہ اس سے کیا مراد ہے)؟
حضرات شیخین نے صراحت کے ساتھ صحیح حدیث کی گزشتہ مذکورہ شروط کے علاوہ کسی مزید شرط کو ذکر یا معیّن نہیں کیا۔ لیکن محققین علماء نے ان بزرگوں کے اسلوب کی چھان بین اور تلاش کے بعد (مزید) کچھ ایسے امور کو تلاش کیا ہے جو ان کے گمان کے مطابق یا تو دونوں کے نزدیک شرط ہیں یا ان میں سے کسی ایک کے نزدیک شرط ہیں (کہ ان بزرگوں نے گزشتہ مذکورہ شروط کے علاوہ ان امور کی بھی رعایت کی ہے)۔ ان کو ’’شرطِ شیخین‘‘ (اگر وہ دونوں کے نزدیک متفق علیہ ہوں ) یا ’’شرطِ بخاری‘‘ اور ’’شرطِ مسلم‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے)۔ [1]
اس بارے سب سے عمدہ قول یہ ہے کہ، ’’شیخین یا دونوں میں سے کسی ایک کی شرط سے یہ مراد ہے کہ وہ حدیث دونوں کتابوں کے یا کسی ایک کتاب کے راویوں سے مروی ہو اور ساتھ ہی یہ کہ اس کیفیت کی بھی رعایت کو ملحوظ رکھا جائے جس کی اپنی رواۃ سے حدیث روایت کرتے ہوئے ان دونوں حضرات نے رعایت کی ہے۔‘‘
۱۴۔ محدثین کے قول ’’متفق علیہ‘‘ کا معنی:
محدثین حضرات جب کسی حدیث کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ ’’متفق علیہ‘‘ ہے، تو اس سے ان کی مراد شیخین کا اتفاق ہوتا ہے (ناکہ امت کا) البتہ ابن صلاح یہ کہتے ہیں ، ’’لیکن کسی حدیث کے متفق علیہ ہونے سے امت کا بھی اس ’’متفق‘‘ ہونا لازم آتا ہے اور شیخین کے اتفاق سے امت کا اتفاق بھی حاصل ہوتا ہے، کیوں کہ جس حدیث کو شیخین نے بالاتفاق صحیح کہا ہے امت نے بھی بالاتفاق اسے قبول کیا ہے۔[2]
۱۵۔ کیا حدیث کے صحیح ہونے کے لیے اس کا ’’عزیز‘‘ ہونا بھی شرط ہے؟
اس بابت صحیح قول یہ ہے کہ کسی حدیث کے صحیح ہونے کے لیے اس کا بایں معنی عزیز ہونا شرط نہیں کہ اس کی دو اسناد ہوں ، کیوں کہ صحیحین اور دوسری کتب صحاح میں ایسی کوئی حدیث نہیں پائی جاتی جو صحیح بھی ہو اور غریب بھی۔ جب کہ بعض علماء جیسے ابو علی جبائی معتزلی اور حاکم وغیرہ نے اس کی شرط لگائی ہے۔ مگر ان کا یہ قول امت کے متفق علیہ قول کے خلاف ہے۔
|