و غریب فضائل) وضع کیے ہیں ۔[1]
ب:… یا ’’جعل ساز‘‘ کوئی ایسی بات کرے جو بمنزلہ اقرار کے ہو: مثلاً وہ ایک شیخ سے حدیث بیان کر رہا ہو مگر جب اس اس سے مذکورہ شیخ کی تاریخِ ولادت کے بارے میں پوچھا جائے تو (اپنی رسوائی اور جگ ہنسائی کا سبب خود پیدا کرتے ہوئے) اس کی تاریخِ ولادت وہ بتلائے کہ اس سے پہلے وہ شیخ اس دارِ فانی کو الوداع بھی کہہ چکا ہو (اور یہیں سے اس کا جھوٹ پکڑا جائے کہ کیا کوئی شخص اپنی وفات کے بعد بھی پیدا ہوا کرتا ہے) اور (دوسرا المیہ یہ ہو کہ) وہ حدیث بھی صرف اسی شیخ سے معروف ہو (تو اب اس حدیث کا موضوع ہونا اور بھی زیادہ پکا ہو گیا)۔
ج:… یا خود راوی میں (جعل سازی کا) کوئی قرینہ ہو: مثلاً راوی رافضی ہو اور (اس کی روایت کردہ) حدیث کا تعلق فضائل اہلِ بیت سے ہو۔ [2]
د:… یا خود روایت میں (اس کے موضوع اور جعلی ہونے کا) کوئی قرینہ ہو: (یاد رہے کہ ’’جعل سازی‘‘ پہچاننے کے اس طریق کا تعلق تائیدِ الٰہی، نورِ بصیرت و فراست، خداداد ذہانت و ذکاوت، ذوقِ سلیم ، لسانِ نبوت کی نزاکتوں ، لطافتوں ، خوبیوں ، باریکیوں اور گہرائیوں سے گہری واقفیّت، عقلِ رساء، عالمانہ، محدثانہ، فقیہانہ اور مجتہدانہ کامل استعداد اور وفور علم سے ہے، یہ ہر کس و ناکس کا کام نہیں ۔ بہرحال خود روایت میں اس کے جعلی ہونے کا قرینہ ہو) مثلاً (مذکورہ) حدیث کے الفاظ بڑے بودے، کمزور، پھُس پھسے اور گھٹیا ہوں [3] (جو عامیانہ فصاحت و بلاغت کے معیار سے بھی گرے ہوں چہ جائیکہ ختمی المرتبت، صاحبِ جوامع الکلم و سبعِ مثانی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ عالیہ کی بلندیوں کی ہم سری کریں اور منصبِ نبوت کے شایانِ شان ہوں ) یا وہ الفاظ حسّ و شعور کے مخالف ہوں یا قرآنِ کریم کے (قطعی مضامین کے) صریح خلاف ہوں ۔[4]
|